الحمد للہ.
الحمدللہ:اول:
آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ آپ نے بال کاٹے، آنکھوں میں کاجل لگائی، اور خاوند نے بوس و کنار بھی کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے تو عمرے کی نیت ہی نہیں کی تھی۔
دوم:
آپ نے طواف، سعی اور بال کاٹے تو اس کے بارے میں تفصیل ہے:
1- اگر آپ نے یہ سب چیزیں عمرے کی نیت کے بغیر ہی کی ہیں، یعنی آپ نے نہ تو احرام کی نیت کی اور نہ ہی عمرے کی نیت کی، بلکہ آپ کے والد نے جب آپ کو طواف اور سعی کا کہا تو آپ نے بغیر نیت کے ہی ان کے ساتھ طواف اور سعی کر لی تو یہ فضول عمل ہیں، ان پر [جزا یا سزا]کچھ بھی مرتب نہ ہو گا، آپ کو ان کے کرنے کا ثواب نہیں ملے گا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ اپنے والد کو وضاحت کر دیتیں کہ آپ نے عمرے کی نیت ہی نہیں کی؛ کیونکہ جو کام عبادت سے تعلق رکھتے ہوں انہیں عبادت اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہی کیا جاتا ہے، [بلا نیت عبادت نہیں کیا جاتا]۔
2- اور اگر آپ نے اپنے والد کے کہنے پر عمرہ کرنے کی نیت کر لی تھی اور پھر آپ نے طواف اور سعی کی تو پھر ایسے علمائے کرام کے ہاں آپ کا عمرہ ٹھیک ہے جو طواف کے لئے طہارت کی شرط نہیں لگاتے، یہ موقف احناف اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا ہے اور اسی کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر متعدد اہل علم نے اپنایا ہے، تاہم احناف ایسی صورت میں ایک اونٹ ذبح کرنے کو لازمی قرار دیتے ہیں جبکہ امام احمد ایک بکری ذبح کرنے کو لازمی قرار دیتے ہیں، جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کچھ بھی لازم ہونے کے قائل نہیں ہیں۔
تاہم اگر آپ کسی کو مکہ میں یہ ذمہ داری دے دیں کہ وہ آپ کی طرف سے بکرا ذبح کر دے اور فقرا و مساکین پر تقسیم کر دے، تو یہ آپ کے لئے بہتر ہو گا اور آپ کی عبادت کے لئے محتاط عمل ہوگا۔
جو شخص مکہ میں عمرے کی نیت کے بغیر آئے اور پھر اس کا دل کرے کہ عمرے کر لینا چاہیے تو ایسے شخص کو حدود حرم سے باہر جانا ہو گا، وہ چاہیے تنعیم چلا جائے یا کہیں اور ، پھر وہاں سے احرام باندھ کر آئے؛ لیکن اگر اس نے حدود حرم کے اندر سے ہی احرام باندھ لیا تو اس پر دم لازم ہو گا، دم کے لئے ایک بکری یا بکرا ذبح کر کے فقرائے مکہ پر تقسیم کی جائے گی، چنانچہ اگر آپ نے یہ سب کام عمرے کی نیت سے کیے تھے تو پھر آپ پر دم لازم ہے؛ کیونکہ آپ نے حدود حرم سے باہر جا کر احرام نہیں باندھا۔
واللہ اعلم