منگل 16 جمادی ثانیہ 1446 - 17 دسمبر 2024
اردو

عید کی قربانی کرے یا اپنے قریبی رشتہ دار کو علاج کیلیے قربانی کی رقم دے دے؟

سوال

کیا کسی شخص کیلیے یہ ممکن ہے کہ قربانی کرنے کی بجائے قربانی کی رقم اپنے قریبی رشتہ دار کو علاج کیلیے دے دے؟ یہ قریبی رشتہ دار انتہائی غریب ہے اسے کچھ زکات کی مد سے بھی علاج معالجے کیلیے تعاون ملا ہے لیکن وہ نا کافی ہے، تو اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصولی طور پر قربانی کی رقم صدقہ کرنے سے قربانی کرنا افضل ہے؛ کیونکہ قربانی کرنے سے جانور ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کیا جاتا ہے اور اس سے قربِ الہی تلاش کیا جاتا ہے، نیز اہل خانہ اور بچوں سمیت معاشرے میں بھی قربانی جیسے شعیرہ کا احیا ہوتا ہے؛ کیونکہ قربانی بھی اسلام کا شعیرہ ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ "تحفۃ المودود " ص (65) میں کہتے ہیں:
"جس جگہ جانور ذبح کرنا عبادت ہو وہاں جانور کی قیمت صدقہ کرنے  سے جانور ذبح کرنا ہی افضل ہے چاہے صدقہ  جانور کی قیمت سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو، جیسے کہ مثال کے طور پر  ہدی [حج کی قربانی]اور عید کی قربانی  وغیرہ ہے، یہاں دونوں جگہ پر جانور ذبح کر کے اس کا خون بہانا مطلوب ہے، [قرآن مجید میں خون بہانے کی شان اتنی ہے کہ اسے] نماز کے ساتھ ملا کر ذکر کیا گیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْپس اپنے رب کیلیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ [الكوثر: 2]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ آپ کہہ دیں: میری نماز، میری قربانی، اور میرا جینا مرنا  اللہ کیلیے ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔ [الأنعام: 162]

ویسے بھی تمام سابقہ امتوں میں نماز اور قربانی کا ایسا تصور موجود تھا کہ جس کا متبادل کوئی چیز نہیں بن سکتی، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص حج تمتع  اور قران کے وقت  قربانی نہ کرے بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ رقم صدقہ کر  دے تو قربانی کا متبادل نہیں ہو گا، اور یہی حال عید پر کی جانے والی قربانی کا ہے" انتہی

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"مسلمان کا اپنی جانب سے اور اپنے زندہ اہل خانہ کی جانب سے قربانی کرنا صاحب استطاعت کیلیے سنت مؤکدہ ہے، اس لیے قربانی ذبح کرنا قربانی کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (11 /419)

[چونکہ قربانی سنت مؤکدہ ہے اس لیے ]اگر یہ رشتہ دار بیمار ہے اور اسے علاج معالجے  اور ادویات کی اشد ضرورت ہے تو اس کی بیماری کیلیے عطیہ دینا اور اس کے علاج کیلیے تعاون کی کوشش کرنا قربانی کرنے سے افضل ہے، اور اگر مرض کی نوعیت شدید قسم کی ہو  اور اس کی اعانت کرنے والا رشتہ دار یا دوست احباب کوئی نہ ہوں تو پھر ان کی مدد کرنا لازمی  ہو جائے گا۔

مصنف عبدالرزاق(8156) میں عمران بن مسلم ،  سوید بن غفلہ سے بیان کرتے ہیں کہ  انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: "اگر میں عید کی قربانی کی رقم کسی یتیم پر خرچ کروں یا خاکسار غریب کو دوں تو یہ میرے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ محبوب ہے" عمران بن مسلم کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ سوید بن غفلہ نے یہ بات اپنی طرف سے کی ہے یا بلال  کے الفاظ ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسا نفلی حج  جو شرعی طور پر مکمل ہو یہ نفلی صدقے سے افضل ہے، لیکن اگر کسی شخص کے غریب اور محتاج رشتہ دار ہوں تو ان پر صدقہ کرنا افضل ہے، اسی طرح اگر کوئی قوم کسی سخی شخص کی جانب سے اعانت اور خرچے کی محتاج ہے [تو تب بھی ان پر صدقہ کرنا افضل ہے] لیکن اگر صدقہ کرنے کی بھی ضرورت نہ ہو اور حج بھی نفلی ہو تو پھر حج افضل ہے؛ کیونکہ حج بدنی اور مالی عبادت ہے ، اسی طرح عید کی قربانی اور عقیقہ کرنا جانور کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے۔" انتہی
"الفتاوى الكبرى" (5/382)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر معاملہ قربانی کرنے اور کسی غریب کا قرضہ چکانے  کے درمیان الجھا ہوا ہو تو پھر غریب کا قرضہ چکانا زیادہ بہتر ہے، خصوصاً اگر مقروض شخص قریبی رشتہ داروں میں سے ہو" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13 /1496)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب