جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

والدہ کو مختلف مقدار میں رقم دیتے ہیں اور والدہ ان میں سے کچھ بچا لیتی ہیں، تو والدہ کی وفات کے بعد بچت کی رقم کیسے تقسیم ہو گی؟

سوال

ہم تین بھائی ہیں، بڑے بھائی پیٹرو کیمیکل انجنیئر ہیں، دوسرا بھائی پرائیویٹ لینگویج اسکول میں عربی ٹیچر ہے، اور میں کسٹمر کیئر میں کام کرتا ہوں، ہم ماہانہ اپنی والدہ کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خرچہ دیتے ہیں، مثلاً: بڑے بھائی 1000، مدرس 600 اور میں 300 دیتا ہوں، یعنی 10:6:3 کے تناسب سے دیتے ہیں، والدہ اس میں کچھ رقم بچت کر لیتی ہے، تو کیا والدہ کی وفات کے بعد یہ رقم مذکور تناسب سے ہی ہم میں تقسیم ہو گی یا پھر برابری کی بنیاد پر تقسیم ہو گی، جزاکم اللہ خیرا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر والدہ کو دیا گیا خرچہ بطور حسن سلوک ہے ، آپ کے سوال سے یہی ظاہر ہو رہا ہے اور عام طور پر ہوتا بھی ایسے ہی ہے تو یہ مال آپ کی والدہ کی ملکیت ہے، تو والدہ کی وفات کے بعد یہ سارا مال والدہ کے ترکے میں شامل ہو جائے گا، اور ان کے ورثا میں ان کے شرعی حصص کے مطابق ہی تقسیم کیا جائے گا، کس نے کتنے دیے تھے یہ نہیں دیکھا جائے گا، چنانچہ تمام بیٹوں کو اس میں سے برابر ملے گا۔

اور اگر والدہ کو یہ رقم بطور قرض دی گئی تو پھر بھی والدہ کی زندگی میں یہ مال ان کی ملکیت میں شامل ہو جائے گا، چنانچہ اگر یہ رقم واپس کرنے سے پہلے وہ فوت ہو جائے تو یہ رقم ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے لے کر قرض خواہوں کو ان کے قرض کی مقدار کے برابر دے دی جائے گی؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ترجمہ: [ترکے کی تقسیم ]میت کی وصیت یا قرض ادا کرنے کے بعد ہو۔[النساء: 11]

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب