الحمد للہ.
جب مرد اپنى بيوى كو طلاق دے دے اور خاوند كے رجوع كيے بغير عورت كى عدت گزر جائے تو وہ عورت خاوند سے بائن ہو كر نكاح سے نكل جاتى ہے، اور اس كے كسى دوسرے خاوند سے نكاح كرنا جائز ہو جاتا ہے.
اس مسئلہ ميں شرعى طور پر اصل يہى ہے ليكن جب نكاح اور طلاق كى توثيق پر بيوى اور خاوند كے حقوق كا انحصار ہے اور اس كے نتيجہ ميں حقوق مرتب ہوتے ہيں اور ان كى اولاد كے حقوق كا انحصار بھى اسى پر ہے، اور بيوى تہمت سے بچ سكتى ہے تو يہ توثيق كرانى واجب ہے، اور اس كا ترك كرنا حرام ٹھرےگا.
ام القرى يونيورسٹى كے پروفيسر ڈاكٹر احمد بن عبد الرزاق الكبيسى كہتے ہيں:
" گواہى اور اعلان كے ساتھ نكاح كى توثيق كراونى ضرورى ہے، اور سد الذريعہ كے ليے تو عدالتوں سے اس كى توثيق ضرورى ہو جاتى ہے تا كہ شك و شبہ اور خرابيوں كو ختم كيا جا سكے، اور حق زوجيت ثابت ہو، اور اگر انہيں اولاد حاصل ہو تو اولاد كے نسب كے اقرار كے ليے نكاح كى توثيق ضرورى ہے.
اور عقد نكاح نكاح رجسٹرار كے پاس ہو اور اس كى توثيق كروائى جائے تا كہ ہم اوپر جو حقوق بيان كر چكے ہيں وہ ثابت كيے جا سكيں، اور شك و شبہ كو ختم كيا جائے اور خاندان كو لوگوں كى بدزبانى سے محفوظ كيا جا سكے، اور پھر شريعت مطہرہ بھى اس كا تقاضہ كرتى اور حكم بھى ديتى ہے " انتہى
ماخوذ از: الاسلام اليوم ويب سائٹ.
مزيد آپ سوال نمبر ( 129851 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں.
آپ كا طلاق كے پيپر آنے سے قبل شادى كرنا ہو سكتا ہے دو خرابيوں كا باعث بنے:
پہلى خرابى:
آپ كا پہلا خاوند آپ كے شرف اور عفت و عصمت ميں طعن كرتے ہوئے طلاق سے انكار كر دے كہ اس نے تو طلاق دى ہى نہيں، اور يہ دعوى كرے كہ ابھى تو تم اس كے نكاح ميں ہى ہو.
دوسرى خرابى:
دوسرا خاوند آپ كے حقوق كى ادائيگى سے ہى بھاگ جائے، اور آپ سے شادى سے ہى انكار كر دے كہ اس نے شادى كى ہى نہيں.
فساد اور فتنہ كى منتشر ہونے اور ذمہ دارى كا پاس نہ ہونے كى بنا پر يہ چيز كوئى بعيد نہيں ہے.
ليكن اگر ان دونوں خرابيوں كے پيدا ہونے كا احتمال نہيں اور آپ كے حقوق كے ثبوت كے ليے اسلامك سينٹر كافى ہے، اور آپ اب شادى كى ضرورت محسوس كرتى ہيں تو پھر آپ كے ليے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ جو چيز سد ذريعہ كے ليے حرام ہو وہ ضرورت اور راجح مصلحت كى بنا پر مباح ہو جاتى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جو چيز سد الذريعہ كے باب سے ہے اگر اس كى ضرورت نہيں تو اس سے منع كيا جائيگا، ليكن اگر اس كى ضرورت اور مصلحت ہو جس كے بغير وہ حاصل ہى نہيں ہو سكتى تو پھر اس سے نہيں روكا جائيگا " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 214 ).
آپ كسى ايسے شخص كو بطور خاوند اختيار كريں جو دين اور اخلاق كا مالك ہو، اور آپ كى حفاظت كرے اور خيال بھى ركھے.
واللہ اعلم.