جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

کیا یہ جائز ہے کہ ہم تراویح کی دو رکعات عشا کی سنت مؤکدہ کی نیت سے ادا کریں؟

سوال

ہم نماز تراویح پڑھتے ہیں تو کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ تراویح میں امام کے ساتھ ابتدائی دو رکعات عشا کی سنت مؤکدہ کی نیت سے پڑھ لوں؟ میں نے ایسا کیا ہے؛ کیونکہ اس وقت فرائض کی جماعت اور تراویح کے درمیان اتنا وقت نہیں تھا کہ میں سنتیں پڑھتا، تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

استطاعت رکھنے والے شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ عشا کی سنت مؤکدہ تراویح کے بعد پڑھے؛ کیونکہ تراویح کا وقت ان دو رکعات کے بعد شروع ہوتا ہے۔

" الموسوعة الفقهية " ( 25 / 281 ) میں ہے کہ:
"نماز تراویح کا وقت عشا کی سنتیں ادا کرنے کے بعد سے شروع ہوتا ہے، اور فجر سے پہلے اتنی دیر تک جاری رہتا ہے کہ اس کے بعد وتر پڑھ سکیں۔" ختم شد
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عشا کی سنتوں کے بغیر تراویح کی ادائیگی صحیح نہیں ہوگی۔

شیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر عشا کے بعد لیکن سنت مؤکدہ سے قبل تراویح پڑھی تو یقینی طور پر اس کی تراویح صحیح ہے، لیکن منصوص موقف کے مطابق افضل یہی ہے کہ سنت مؤکدہ ادا کرنے کے بعد تروایح پڑھے۔" ختم شد
" كشاف القناع " ( 1 / 426 )

اور کیا یہ صحیح ہے کہ تراویح کی دو رکعات عشا کی سنت مؤکدہ کی نیت سے پڑھ لے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ: جی ہاں صحیح ہے، بلکہ یہ بھی صحیح ہے کہ عشا کی نماز؛ تراویح پڑھانے والے امام کے پیچھے پڑھ لے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دوران تراویح امام کے ساتھ عشا کی نماز کی نیت سے شامل ہو جائیں اور جب امام سلام پھیرے تو آپ کھڑے ہو کر اپنی فرض نماز مکمل کرنے کے لئے دو رکعتیں پڑھ لیں، الا کہ آپ مسافر ہوں تو امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دیں، پھر اگر آپ مسافر نہیں ہیں تو امام کے ساتھ عشا کی سنت مؤکدہ پڑھنے کی نیت سے شامل ہو جائیں ، پھر جب آپ عشا کی سنت مؤکدہ پڑھ لیں تو امام کے ساتھ تراویح کی نیت سے شامل ہو جائیں، یہاں امام اور مقتدی کی نیت مختلف ہونے سے کچھ نہیں ہو گا۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ امام نفل کی نیت سے نماز پڑھا رہا ہو اور مقتدی فرض کی نیت سے نماز پڑھے تو جائز ہے، امام احمد نے اس کے بارے میں صراحت کی ہے کہ انسان تراویح پڑھانے والے کے پیچھے عشا کی نماز ادا کر سکتا ہے۔" ختم شد
" الشرح الممتع على زاد المستقنع " ( 4 / 66 )

تاہم مذکورہ دونوں حالتوں میں جتنی بھی نماز پڑھی ہے اسے قیام اللیل میں شمار نہیں کرے گا؛ کیونکہ نماز تراویح مستقل الگ نماز ہے، اس لیے تراویح اور عشا کی سنت مؤکدہ ایک نیت سے ادا نہیں ہو سکتیں، تو فرض نماز میں بالاولی نہیں ہوں گی، چنانچہ صرف عشا کی سنت مؤکدہ ادا کرنے کی نیت ہوگی اور امام کے ساتھ قیام میں یہ دو رکعات شامل نہیں ہوں گی۔

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عشا کی سنت مؤکدہ کی تعداد دو رکعت ہے، ان کے لئے مسنون یہ ہے کہ انہیں نماز تراویح سے قبل ادا کیا جائے؛ کیونکہ سنت مؤکدہ اور تراویح الگ الگ سنتیں  ہیں۔" ختم شد
" فتاوى شیخ ابن باز " ( 30 / 56 )

پورا اجر حاصل کرنے کے لئے امام صاحب سے بات کریں کہ عشا کی نماز با جماعت کے بعد تمام نمازیوں کو اتنا وقت دیں کہ لوگ تسبیحات، اذکار، اور عشا کی سنت مؤکدہ ادا کر لیں اور پھر نماز تراویح پڑھائے۔

اگر امام کی جانب سے مثبت جواب نہ آئے یا وقت اتنا کم ہو کہ عشا کی سنت مؤکدہ ادا کرنے کا وقت نہ ہو تو پھر اسے اختیار ہے کہ درج ذیل میں سے کوئی ایک کام کرے:

  1. عشا کی سنت مؤکدہ نماز تراویح کے بعد تک مؤخر کر لے، لیکن خیال رہے کہ آدھی رات سے زیادہ مؤخر نہ کرے؛ کیونکہ آدھی رات گزرنے کے بعد نماز عشا اور عشا کی سنت مؤکدہ کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
  2. عشا کی سنت مؤکدہ تراویح کے درمیان ہونے والے وقفے میں پڑھ لے یا جب وعظ و نصیحت شروع ہو تو اس وقت پڑھے۔ اس وقت میں سنت مؤکدہ پڑھنا تراویح کی رکعات کے درمیان نوافل کی ممانعت میں شامل نہیں ہو گا؛ کیونکہ یہ مطلق نوافل نہیں ہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہیں۔
  3. تراویح کی ابتدائی دو رکعات عشا کی سنتوں کی نیت سے پڑھے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب