الحمد للہ.
بيوى اور خاوند كى حالت كے مناسب رہائش ميں بيوى كو ركھنا بيوى كے خاوند كے ذمہ واجب حقوق ميں شامل ہوتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جہاں تم رہتے ہو تم انہيں ( بيويوں كو ) اپنى استطاعت كے مطابق رہائش دو اور انہيں تنگ كرنے كے ليے ضرر مت دو الطلاق ( 6 ).
خاوند كو يہ نہيں چاہيے كہ وہ بيوى كو اپنے گھر والوں كے ساتھ ايك ہى رہائش ميں ركھے، چاہے اس رہائش ميں اس كى والدہ يا بہنيں يا كوئى اور رشتہ دار رہتا ہو، اور نہ ہى وہ بيوى كو اس كى سوكن كے ساتھ ايك ہى رہائش ميں ركھے بلكہ خاوند پر واجب ہے كہ وہ بيوى كو عليحدہ اور مستقل رہائش لے كر دے جو بيوى كے رہنے اور سونے كے ليے مناسب ہو جس ميں باوچى خانہ اور ليٹرين وغيرہ جيسى بنيادى ضروريات موجود ہوں.
يہ تو معلوم اور مشاہدہ ميں ہے ايك ہى رہائش ميں كئى گھرانوں كے رہنے سے گھر كا سكون اور خصوصيت بربادى ہو جاتى ہے، اور پھر خاوند اور بيوى كو بہت شديد نقصان ہوتا ہے، خاوند اور بيوى كا آپس ميں ايك دوسرے سے فائدہ و لطف اٹھانے سے محروم رہتے ہيں جو وہ ايك عليحدہ اور مستقل رہائش ميں حاصل كر سكتے ہيں اور انہيں وہ سكون بھى حاصل نہيں ہوتا.
يہ ايسى چيز ہے جس كى بنا پر محبت و مودت ميں كمى پيدا ہو جاتى ہے، بلكہ بعض اوقات تو بالكل ختم ہى ہو جاتى ہے لا حول و لا قوۃ الا باللہ .
اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ شرعى مقاصد اور عقل كے حكم كو سمجھے اسے والدين كے متعلق صرف جذبات ميں ہى نہيں رہنا چاہيے كہ وہ ان كے ساتھ ہى زندگى گزارے.
بلكہ اگر وہ اپنى بيوى كے ساتھ قريب ہى رہائش حاصل كرتا ہے تو جتنا چاہے وہ والدہ رشتہ داروں كے ساتھ وقت گزار سكتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ وہ اپنى بيوى اور اپنى گھريلو زندگى كو بھى محفوظ بنا سكتا ہے، اس طرح دونوں مصلحتوں كو اكٹھا كر لےگا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 7653 ) اور ( 85162 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ بيوى كا اپنے خاوند كے رشتہ داروں اور ساس سسر كى خدمت كرنا بيوى پر واجب نہيں؛ بلكہ بيوى پر تو صرف اكيلے خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے.
ليكن اگر بيوى ساس وغيرہ كى خدمت كرتى ہے تو يہ خاوند كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل ہوگا، اور اس ميں خاوند كى عزت ہوگى تو يہ بيوى كى جانب سے ايك اچھا كام ہے، اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كرتا ہوا اس كے اس كام كو سراہے اور شكر ادا كرے كيونكہ جو لوگوں كا شكر ادا نہيں كرتا وہ اللہ تعالى كا شكر ادا نہيں كر سكتا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 120282 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ اس معاملہ انتظار كريں اور اپنے خاوند كو بڑے ٹھنڈے مزاج اور سكون كے ساتھ سمجھانے كى كوشش كريں، اور اس كے سامنے اس معاملہ ميں شرعى حكم واضح كريں، اس كے ليے آپ كے ليے اوپر بيان كردہ فتاوى جات سے سہارا لينے ميں بھى كوئى حرج نہيں جن كے حوالہ جات ہم سوالات كے نمبر دے كر بيان كر چكے ہيں جب آپ كا خاوند دين پر عمل كرنے والا ہے تو وہ اس پر عمل كريگا.
اور اگر آپ اكيلى اسے قائل نہ كر سكيں تو پھر آپ كے ليے اس مشكل كو حل كرنے ميں اپنے گھر والوں سے بھى مدد لينے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ اس صورت ميں ہے جب آپ اكيلى اسے حل كرنے سے عاجز ہوں، اور اس كے ليے بھى شرط يہ ہے كہ آپ اپنے رشتہ داروں كو نصيحت كريں كہ دخل اندازى حكمت كے ساتھ بہتر طريقہ سے كريں، اور نرمى اختيار كرتے ہوئے حل كرنے كى كوشش كريں.
كيونكہ نرمى ہر چيز كو خوبصورت بنا ديتى ہے، اور جس چيز سے نرمى جاتى رہے وہ بدصورت اور عيب دار ہو جاتى ہے.
اس كے ليے لازم نہيں كہ اس معاملہ ميں آپ كے والد ہى دخل اندازى كريں، بلكہ آپ اپنے رشتہ داروں ميں كسى ايسے شخص كو اختيار كريں جو سب سے زيادہ حكمت ركھتا ہو اور سب سے بہتر عقل و دانش كا مالك ہو، اور آپ كے خاوند كے ساتھ افہام و تفہيم كے زيادہ قريب ہو.
رہا مسئلہ طلاق طلب كرنے كا تو آپ اس كے متعلق مت سوچيں، خاص كر جب آپ كى اولاد بھى ہے، ليكن اگر معاملہ نہيں سلجھتا اور آپ كے تعلقات بہت كشيدہ ہو جائيں كہ آپ اس حالت ميں صبر نہ كر سكتى ہوں، ہم يہى اميد ركھتے ہيں كہ آپ ان شاء اللہ طلاق كا نہيں سوچيں گى.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كا معاملہ آسان فرمائے، اور آپ كے خاوند كى اصلاح فرمائے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والے ہيں.
واللہ اعلم .