اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

عليحدہ فليٹ ہونے كے باوجود سسرال والوں كے ساتھ رہتى ہے

85162

تاریخ اشاعت : 11-12-2012

مشاہدات : 5220

سوال

ميرى ہى نہيں بلكہ اكثر باپرد خواتين كى حالت بھى يہى ہے، ہم اپنے خاوندوں كے ساتھ ايك ہى گھر ميں خاوند كے خاندان كے ساتھ رہائش ركھتى ہيں، جہاں خاوند كے دوسرے بھائى بھى رہتے ہيں، اور پھر گھريلو كام كاج كے ليے كوئى ملازمہ بھى نہيں ہوتى، حالانكہ گھريلو كام كاج بہت شاق اور مشكل ہوتاہے، اور پھر گھر ميں ہمارے خاوند كے چچا اور ماموں كو بغير اجازت داخل ہونے كى ممانعت بھى نہيں ہے، گھر كھلا رہتا ہے جب كوئى آنا چاہے بغير اجازت داخل ہو جاتا ہے، اور اگر ہم بالكونى كى صفائى كريں تو ہميں پڑوسى اور گلى ميں ہر كوئى ديكھ سكتا ہے.
كيا ہم گھر سے باہر نكلتے وقت ہى نقاب اور پردہ كريں، يا كہ صبح و شام گھر ميں بھى پردہ اور نقاب كے ساتھ رہنا ہو گا ؟
يہ علم ميں رہے كہ سارا دن گھر ميں ايسے رہنا بہت مشكل ہے، ميرا عليحدہ فليٹ تو ہے ليكن ہم وہاں صرف سونے كے ليے جاتے ہيں، ميں اپنے ديور اور ساس كے ساتھ رہتى ہوں ہم عليحدہ رہائش ركھ سكتے ہيں ليكن ميرا خاوند عليحدہ نہيں رہنا چاہتا، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جن حالات ميں فتنہ و فساد كا خدشہ ہو وہاں پردہ اور نقاب كى تو اور بھى تاكيد ہو جاتى ہے، اور خاص كر جب ايك بڑا خاندان ايك ہى گھر ميں رہتا ہو جس ميں خاوند كے بھائى يا چچا اور ماموں كے بيٹے بھى ہوں، يہ سب كچھ شرم و حياء كو ختم كرنے كا باعث بنتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ شيطان نفسانى طمع و لالچ كو اور بھى زيادہ ملمع سازى كر كے پيش كرتا ہے.

اس ليے عورت كو ان حالت ميں اپنے چہرے كے پردے كا بہت خيال كرنا چاہيے، وہ اپنے غير محرم كے سامنے چہرہ ننگا مت كرے، بلكہ اگر اس سلسلہ ميں اسے مشقت بھى اٹھانى پڑے كو كوئى بات نہيں.

ہمارى اسى ويب سائٹ اس سوال سے ملتے جلتے سوال كا جواب موجود ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ پردہ كرنا واجب ہے، اس ليے آپ مزيد استفادہ كے ليے ان سوالات كے جوابات كا مطالعہ كر سكتى ہيں مثلا: سوال نمبر ( 6408 ) اور ( 13261 ) اور ( 40618 ) اور ( 47764 ) اور ( 52814 ).

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہا خاوند كے بھائى كا يا پھر بہنوئى اور چچا يا ماموں يا خالہ وغيرہ كے بيٹوں كا مسئلہ تو يہ سب عورت كے محرم نہيں بنتے، اور انہيں حق حاصل نہيں كہ وہ اس عورت كا چہر ديكھ سكيں، اور اسى طرح عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان سب كے سامنے اپنا پردہ اتارے، كيونكہ اس ميں تو فتنہ و خرابى پيدا گى.

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كيا كرو، تو ايك شخص نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں ذرا خاوند كے رشتہ دار مرد كے بارہ ميں بتائيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

ديور تو موت ہے " متفق عليہ.

يہاں " الحمو " سے مراد خاوند كا بھائى اور خاوند كا چچا وغيرہ مراد ہيں، كيونكہ يہ گھر ميں بغير كسى شك و شبہ كے داخل ہوتے ہيں، ليكن خاوند كے قريبى رشتہ دار ہونے كى بنا پر محرم نہيں شمار نہيں ہونگے.

اس ليے كسى بھى عورت كو ان افراد كے سامنے اپنى زيبائش والى جگہيں يعنى چہرہ وغيرہ ننگا كرنا جائز نہيں، چاہے يہ بہت ہى زيادہ نيك و صالح بھى ہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے زيائش والى اشياء كے اظہار كے ليے صرف محرم مرد كى شرط لگائى ہے، نہ كہ ديور اور خاوند كا چچا اور خاوند كے چچا كا بيٹا وغيرہ.

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى حديث ميں فرمايا ہے:

" كوئى بھى شخص كسى بھى عورت كے ساتھ اس كے محرم مرد كے بغير خلوت مت كرے "

يہاں محرم سے مراد وہ مرد ہوگا جو نسب يا پھر سسرالى يا رضاعت كى بنا پر ہميشہ كے ليے حرام ہو جائے، مثلا باپ بيٹا بھائى، اور چچا، يا جو ان كے قائم مقام ہوتے ہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے اس ليے منع فرمايا ہے كہ كہيں شيطان انہيں گمراہ كر كے ان ميں فتنہ و فساد پيدا نہ كر دے اور معصيت و نافرمانى كو مزين كر كے وسوسہ ڈال كر غلط اور فحش كام كى طرف نہ لے جائے.

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" جو مرد بھى كسى عورت كے ساتھ خلوت كرتا ہے تو ان كے ساتھ تيسرا شيطان ہوتا ہے "

امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد ميں اسے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

جن علاقوں ميں اس كے خلاف رواج ہے اور ان كى عادت ہے كہ ان كے خاندان ميں ايسا ہى ہوتا ہے تو انہيں اپنى اس غلط عادت كو ختم كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، كيونكہ اسے ختم كرنے ميں ہى عزت كى حفاظت ہوگى، اور پھر نيكى و تقوى كے امور ميں ايك دوسرے سے تعاون بھى ہوگا.

اور يہى نہيں بلكہ اس عادت كو مٹا كر صحيح راہ اپنانے ميں ہى اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى تنفيذ ہو سكتى ہے، انہيں چاہيے كہ وہ اسے ختم كر كے اللہ سبحانہ و تعالى سے توبہ و استغفار كريں، اور نيكى كا حكم ديں اور برائى سے روكيں، اور اسى پر قائم رہيں.

انہيں حق قائم كرنے اور باطل كو ختم كرنے ميں كسى بھى قسم كى ملامت كا ڈر نہيں ہونا چاہيے، اور كسى آدمى كا استھزاء اور مذاق اور آوازے كسنا اسے سنت كے مطابق اور اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر عمل كرنے سے مت روكے.

كيونكہ مسلمان شخص پر تو مكمل و رضا و رغبت كے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالى كى شريعت پر عمل كرنا واجب ہے كہ اسے سرانجام دينے پر اجروثواب ہوگا، اور عمل نہ كرنے پر اللہ تعالى سزا دےگا، چاہے اس ميں اس كا قريب ترين اور محبوب ترين شخص بھى مخالفت كرے " انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 4/256- 258 ).

خاوند كو يہى نصيحت ہے كہ وہ اپنے خاندان سے عليحدہ اور مستقل رہائش كى كوشش كرے، اور اس ميں كسى بھى قسم كى كوتاہى اور سستى سے كام مت لے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے كل روز قيامت اس سے اس كى ذمہ دارى اور رعايا كے بارہ سوال كرنا ہے، اور اسے اپنى رعايا كى حفاظت كرنا واجب قرار ديا ہے، اسے اس كى حفاظت كرتے ہوئے اپنے بھائيوں اور خاندان كے ساتھ ايك ہى گھر ميں رہنے پر اصرار نہيں كرنا چاہيے.

خاوند بيوى كو اپنے بہن بھائيوں اور والدين كے ساتھ ركھنے كا حق نہيں ركھتا، بلكہ خاوند پر واجب ہے كہ جب بيوى عليحدہ رہائش كا مطالبہ كرے تو وہ اسے عليحدہ اور مستقل رہائش ميں ركھے، اس كى تفصيلات ميں آپ علماء كرام كے اقوال سوال نمبر ( 7653 ) ميں ديكھ سكتى ہيں.

سوال ميں آپ نے جو حالات بيان كيے ہيں وہ برائى اور منكرات سے خالى نہيں ہو سكتے، كيونكہ عورت كے صبح سے شام تك پردہ كرنا چاہے گھر ميں ہى ہو مشكل ہے، اور اس طرح تو وہ گھر كے كام كاج بھى نہيں كر سكتى، اس ليے چہرہ اور ہاتھ وغيرہ تو ضرور ننگا كرنا پڑيں گے، اور اس طرح ديور اور گھر موجود دوسرا غير محرم شخص اسے ديكھ لےگا حالانكہ عورت كے ليے ان كى موجودگى ميں پردہ اتارنا جائز نہيں ہے.

اس ليے خاوند اپنى پر اسے لازم مت كرے كہ وہ ايسا ضرور كرے، كيونكہ اس طرح اس كے ايمان ميں كمى ہو جائيگى اور پھر آہستہ آہستہ اس سے شرم و حياء جاتى رہےگى جس كا ذمہ دار خاوند ہوگا اور اسے كل روز قيامت اپنى اس ذمہ دارى اور رعايہ كا جواب دينا ہے.

آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے كہ آپ كا اپنا خاص فليٹ ہے تو پھر خاوند كو آپ كے ساتھ حسن سلوك اور حسن معاشرت كرنے ميں كيا مانع ہے اور آپ كى حفاظت كرنے ميں كيا چيز روكتى ہے.

آپ سارا دن اپنے سسرال والوں كے ساتھ رہيں اور رات اپنے فليٹ ميں چلى جاتى ہيں، اس كے بدلے اسے اس ميں كا چيز مانع ہے كہ آپ دن رات اپنے فليٹ ميں رہيں، كيونكہ سسرال كے ساتھ رہنے ميں آپ كو مشقت اور مشكلات درپيش ہيں.

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے خاوند كو اس كى ہدايت دے اور ايسا كام كرنے كى توفيق نصيب كرے جس ميں آپ دونوں كے ليے دين و دنيا و آخرت كى بھلائى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب