الحمد للہ.
اول:
یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ مختلف اقوام اور معاشروں میں سالوں کی دو قسمیں ہیں ایک "شمسی سال" جس میں سال کی ابتدا اور انتہاء کیلئے سورج کی نقل و حرکت پر اعتماد کیا جاتا ہے، اور اس سال کے (365) دن ہوتے ہیں۔
اور دوسری قسم ہے: "قمری سال" اس کیلئے ہر ماہ چاند کے نظر آنے اور چھپ جانے پر اعتماد کیا جاتا ہے، اور اس سال میں (354) دن ہوتے ہیں۔
تاہم شمسی اور قمری سال مہینوں کی تعداد میں برابر ہیں، لیکن دنوں کی تعداد میں کمی بیشی ہے، چنانچہ شمسی سال کے دن قمری سال کے مقابلے میں 11 دن زیادہ ہیں۔
عیسوی سال کا انحصار شمسی سال پر ہوتا ہے، جبکہ ہجری تاریخ کا انحصار قمری سال پر ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ رمضان کی ابتدا ہر سال شمسی کیلنڈر کے مطابق تبدیل ہوتی ہے، اور اس طرح سال کے چاروں موسموں میں ماہِ رمضان آتا ہے۔
دوم:
قمری سال کو معیار بنانا واجب ہے؛ اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ
ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کو چمکدار بنایا، اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تا کہ تم سالوں کی تعداد اور حساب جان سکو۔[يونس : 5]
اور ایک مقام پر فرمایا: إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد آسمان و زمین کی پیدائش کے دن سے کتاب الہی میں بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی مضبوط دین ہے، چنانچہ ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔[التوبة : 36]
اس آیت میں فرمانِ الہی: " ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ " اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قمری سال ہی شریعتِ مستقیم ہے، اسی کو اللہ تعالی نے ہمارے لیے پسند فرمایا ہے، اور اس کے علاوہ جتنی بھی اقوام کی عادات ہیں وہ معیار نہیں ہے، کیونکہ ان میں انحراف اور خلل پایا جاتا ہے۔
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عبادات اور دیگر احکامات کیلئے معیار عرب کے ہاں مشہور مہینوں اور سال کو بنایا جائے گا، عجمی، رومی یا قبطی سالوں کو معیار نہیں بنایا جا سکتا" انتہی
"الجامع لأحكام القرآن " (8/133)
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ عجمی، رومی یا قبطی سالوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ وہ اپنے کچھ مہینوں کو تیس کا یا اس سے کم یا زیادہ کا بناتے ہیں" انتہی
"فتح القدير" (2/521) کچھ تبدیلی کیساتھ
فرمانِ باری تعالی ہے:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ
ترجمہ: وہ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیں کہ: یہ لوگوں کیلئے [عبادت کے]اوقات اور حج کا وقت معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔[البقرة : 189]
مطلب یہ ہے کہ چاند دیکھ کر احرام کھولنے اور باندھنے ، روزے رکھنے اور چھوڑنے، نکاح، طلاق، عدت، معاملات، تجارت ، قرض کی ادائیگی اور دیگر دینی و دنیاوی امور کیلئے یکساں معیار ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے یہ بتلا دیا کہ یہ لوگوں کیلئے وقت معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں، اور کسی بھی معاملے کیلئے چاند کی تاریخ پر انحصار کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالی نے قمری کیلنڈر کو شرعی احکامات کیلئے معیار قرار دیا،۔۔۔ اور اس میں روزے، حج، ایلاء کی مدت، عدت، اور کفارے کے روزے وغیرہ شامل ہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (25/133)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انگریزی مہینوں کا اعتبار کرنا مشاہداتی، عقلی اور شرعی کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی سبب کے انگریزی مہینوں میں کسی مہینے کے 28دن بھی ہوتے ہیں، کچھ کے 30 اور کچھ 31 ، ویسے بھی شمسی مہینوں کی مشاہداتی طور پر حد بندی نہیں کی جا سکتی، لیکن قمری مہینوں کے ایام کیلئے مشاہداتی دلائل ہر کسی کیلئے دیکھنا ممکن ہوتے ہیں" انتہی
" تفسير البقرة " ( 2 / 371 )
واللہ اعلم.