اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا پرورش كرنے والى عورت كے سفر كرنے سے حق پرورش ساقط ہو جاتا ہے؟

171332

تاریخ اشاعت : 06-02-2013

مشاہدات : 3118

سوال

كيا پرورش كرنے والى ماں اپنےتين اور چھ سال كے بچوں كو باپ كى اجازت كے بغير لے كر دو حالتوں ميں سفر كر سكتى ہے يا نہيں ؟
پہلى حالت:
وہ اپنے خاوند كے نكاح ميں ہو يعنى اس كى بيوى ہے
دوسرى حالت:
طلاق كى حالت ميں: يہ علم ميں رہے كہ پرورش كرنے والى عورت بچوں كو باپ كے شہر سے اپنے ميكے دوسرے شہر يا ديہات ميں لے جانا چاہتى ہے جو چھ سو كلو ميٹر دور ہے عورت كا نكاح وہيں ہوا تھا، ليكن يہ طے ہوا تھا كہ شہر ميں جہاں خاوند كا گھر ہے منتقل ہو جائيگى، لہذا عورت كے ميكے والوں نے بيوى كو خاوند كے گھر پہنچايا اور رخصتى وہيں ہوئى، اور شادى بھى امام شافعى رحمہ اللہ كے مسلك كے مطابق ہوئى تھى.
كيا يہ سفر حق پرورش كو ساقط كر ديگا كہ حق پرورش ماں سے منتقل ہو كر باپ كو مل جائيگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

چھوٹا بچہ جو تميز نہيں كر سكتا كى پرورش كا ماں كو زيادہ حق ہے، جب تك وہ آگے شادى نہيں كرتى، يا پھر بچے كى پرورش ميں كوئى اور مانع حائل نہ ہو جائے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 91862 ) اور ( 43476 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اگر ماں بچے كے نكاح زوجيت ميں ہو تو ماں پر واجب ہے كہ بچے كو باپ كے مسكن ميں ركھے.

اور اگر وہ زوجيت ميں نہيں تو جمہور فقھاء نے شرط ركھى ہے كہ بچے كى پرورش باپ كے شہر اور علاقے ميں ہى ہونى چاہيے.

الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ميں درج ہے:

" اگر بچے كى پرورش كرنے والى عورت بچے كا ماں اور اس كے باپ كى زوجيت ميں ہو تو پرورش كى جگہ وہ مسكن ہے جہاں بچے كا باپ رہتا ہے، يا پھر اگر ابھى وہ طلاق رجعى كى عدت ميں ہے يا بائن ہو چكى ہے تو بھى دوران عدت اسى مسكن ميں پرورش كريگى.

كيونكہ بيوى كى نگرانى لازمى ہے، اور بيوى كے ليے خاوند كے ساتھ رہنا لازم ہے، اور اسى طرح عدت والى مطلقہ عورت كے ليے بھى خاوند كى رہائش ميں ہى عدت گزارنى لازم ہے چاہے وہ بچے كے ساتھ ہو يا بغير بچے كے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں، الا يہ كہ وہ كوئى واضح فحاشى كا كام كريں .

اور جب عدت ختم ہو جائے تو بچے كى پرورش كى جگہ وہى شہر اور علاقہ ہے جہاں بچے كا باپ يا اس كا ولى رہتا ہے اسى طرح اگر بچے كى پرورش كرنے والى ماں كے علاوہ كوئى دوسرى عورت ہو تو بھى اسے اسى علاقے ميں پرورش كرنا ہو گى كيونكہ باپ كو اپنا بچہ ديكھنے اور اس سے ملنے اور اس كى تربيت كى نگرانى كا حق حاصل ہے، اور يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب بچہ باپ يا ولى كے علاقے ميں ہى رہتا ہو.

مذاہب اربعہ كے مابين يہ قدر مشترك ہے، اور احناف نے اسى كى صراحت بھى كى ہے، اور دوسرے مذاہب كى عبارات بھى اسى پر دلالت كرتى ہيں "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 17 / 308 ـ 309 )

فرض كريں كہ اگر ماں اور باپ دونوں كا ايك شہر ميں اكٹھا ہونا مشكل ہو اور كسى ايك كسى دوسرے شہر ميں منتقل ہونا متعين ہو جائے تو جمہور اہل علم كہتے ہيں كہ اس حالت ميں ماں كا حق پرورش ساقط ہو جائيگا، اور باپ كو حق پرورش حاصل ہوگا چاہے منتقل ہونے والا باپ ہو يا ماں.

الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ميں درج ہے:

" پرورش كرنے والے يا بچے كے ولى كا ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل ہونے كے مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے جسے ذيل ميں بيان كيا جاتا ہے:

جمہور فقھاء مالكيہ شافعيہ اور حنابلہ پرورش كرنے والے يا بچے كے ولى كے مابين فرق كرتے ہيں كہ تجارت اور زيارت كے سفر اور ايك جگہ سے دوسرى جگہ رہائش اختيار كرنے كے سفر ميں فرق ہوگا.

اگر تو ولى يا بچے كى پرورش كرنے كا سفر دوسرى جگہ منتقل ہونے اور رہائش اختيار كرنے كے ليے ہو تو اس حالت ميں ماں كا حق پرورش ساقط ہو جائيگا، اور منتقل ہو كر دوسرے حقدار كو مل جائيگا، ليكن شرط يہ ہے كہ چھوٹے بچے كے ليے راستہ پرامن ہو اور جہاں منتقل كيا جا رہا ہے ہے وہ بھى مامون ہو، بچے كى پرورش كا باپ زيادہ حقدار ہے چاہے وہ مقيم ہو يا منتقل ہونے والا، كيونكہ عادتا باپ ہى بچے كى تربيت كرتا اور اسے ادب سكھاتا ہے، اور اپنے نسب كو محفوظ ركھتا ہے، اس ليے جب بچہ اپنے باپ كے شہر ميں نہيں ہوگا تو وہ ضائع ہو جائيگا.

ليكن حنابلہ نے يہ قيد لگائى ہے كہ باپ كو اوليت اس صورت ميں حاصل ہوگى جب ماں كو ضرر نہ ہوتا ہو اور بچہ ماں سے چھينا نہ جائے، اس ليے اگر باپ ايسا كرنا چاہے تو اس كى بات نہيں مانى جائيگى، بلكہ بچے كى مصلحت مدنظر ركھى جائيگى.

اور اگر ماں بھى بچے كے ساتھ سفر كرتى ہے تو بچہ اس ماں كى پرورش ميں ہى رہےگا...

اور اگر سفر تجارتى يا كسى كو ملنے كے ليے ہو تو بچہ دونوں ميں سے مقيم كے پاس رہےگا حتى كہ مسافر واپس آ جائے اس ميں لمبے يا تھوڑے سفر كى كوئى قيد نہيں بلكہ برابر ہے، اسى طرح اگر سفر منتقل ہونے كے ليے ہو اور سفر بھى پرخطر ہو تو بچہ مقيم كے ساتھ رہے گا...

مالكى حضرات كے ہاں يہ ہے كہ اگر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك ـ يعنى پرورش كرنے والى يا بچے كا ولى ـ تجارتى سفر يا ملاقات و زيارت كے ليے سفر پر جائے تو ماں كا حق پرورش ساقط نہيں ہوگا، اگر سفر پر جائے تو وہ ساتھ لے كر جائيگى، اور اگر باپ سفر پر گيا ہو تو ماں كے پاس رہے گا.

ليكن احناف كہتے ہيں كہ: بچے كى پرورش كرنے والى ماں كے ليے بچے كے باپ كى زوجيت ميں ہوتے ہوئے يا عدت ميں كسى دوسرے شہر ميں جانا جائز نہيں خاوند كو اسے روكنے كا حق حاصل ہے.

ليكن اگر اس كى عدت گزر چكى ہو تو پرورش والے بچے كو لے كر درج ذيل حالتوں ميں دوسرے شہر لے جانا جائز ہے:

1 ـ جب كسى قريبى علاقے اور شہر ميں رہے جہاں باپ اپنے بچے كو ديكھ كر دن ميں ہى واپس آ سكتا ہو اور وہ علاقہ باپ كے علاقے سے كم تر نہ ہو كہ بچے كى اخلاق پر اثرانداز ہو.

2 ـ جب كسى دور والے علاقے ميں جائے تو درج ذيل شروط پائى جاتى ہوں:

ا ـ جہاں گئى ہے وہ اس كا وطن ہو.

ب ـ خاوند نے بيوى سے نكاح اس علاقے ميں كيا ہو.

ج ـ اگر خاوند مسلمان يا ذمى ہو تو جہاں عورت منتقل ہوئى ہے وہ علاقہ دار الحرب نہ ہو...

يہ اس صورت ميں ہے جب بچے كى تربيت كرنے والى عورت بچے كى ماں ہو، اور اگر ماں نہيں بلكہ كوئى دوسرى عورت ہے تو وہ بچے كو باپ كى اجازت كے بغير نہيں لے جا سكتى كيونكہ ان كے مابين عقد نكاح نہيں ہے.

احناف كى رائے يہ ہے كہ جب تك اس كا حق پرورش قائم ہے چھوٹے بچے كو حق پرورش والى عورتوں ميں سے ماں كى رضامندى كے بغير بچے كا باپ يا ولى كہيں اور منتقل نہيں كر سكتا، اور منتقل ہونے سے حق پرورش ساقط نہيں ہوگا، چاہے منتقل ہونے والى جگہ قريب ہو يا بعيد " انتہى

الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 17 / 308 ـ 311 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ " المغنى ابن قدامۃ ( 242 ـ 243 ) كا مطالعہ ضرور كريں.

شافعيہ كا مذہب وہى ہے جو جمہور كا مسلك ہے اسے اوپر كى سطور ميں بيان كيا جا چكا ہے.

شيخ زكريا الانصارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فصل: اگر ( دونوں ميں سے كوئى ضرورت كى بنا پر سفر كرے ) مثلا حج يا تجارت يا سير و تفريح كے لے تو تميز كرنے والے غير مميز بچے كے ليے مسافر كے واپس آنے تك ( والد اولى ہے ) چاہے خطرہ كى بنا پر سفر كى مدت طويل بھى ہو ليكن واپس آنے كى اميد موجود رہے تو.

جى ہاں اگر مقيم ماں ہو اور بچے كا اس كے ساتھ رہنا خرابى كا باعث ہو يا مصلحت ضائع ہوتى ہو، مثلا بچے كو قرآن كى تعليم دلوا رہا ہو، يا پھر كوئى فن سكھا رہا ہو اور وہ دونوں ايك ہى شہر ميں رہتے ہوں اور باپ كا كوئى قائم مقام نہيں، تو باپ كو سفر كرنے ديا جائيگا خاص كر جب بچے نے والد كو اختيار كيا ہو تو " زركشى وغيرہ نے يہى ذكر كيا ہے.

يا پھر نماز قصر كى مسافت سے بھى قليل مسافت كا سفر ہو تو باپ زيادہ اولى ہے، اور اگر مسافر خود ہو نسب كى حفاظت اور ادب كى مصلحت و تعليم خاطر اور بچے پر خرچ كرنے كى سہولت كے ليے، يہ تو اس صورت ميں ہے كہ اگر اس كے مقصد اور راستے ميں خطرہ نہ ہو، ليكن اگر خطرہ ہو مثلا حملہ وغيرہ كا خطرہ ہو تو پھر مقيم اولى ہے " انتہى

ديكھيں: اسنى المطالب ( 3 / 451 ) اور البيان شرح المھذب ( 11 / 291 ).

ليكن شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے باپ كى طرف حق پرورش منتقل ہونے كو مقيد كرتے ہوئے كہا ہے كہ اگر وہ منتقل كرنے ميں ضرر كا مقصد نہ ركھتا ہو، ليكن اگر وہ ضرر و نقصان كا ارادہ ركھتا ہو تو پھر اسے اپنى جانب حق پرورش منتقل كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں ہے.

سوم:

جمہور اہل نے ماں كو حق پرورش كا استحقاق دينے ميں دونوں كا ايك ہى علاقے اور شہر ميں رہنا مقيد كيا ہے؛ اس ليے اگر دونوں ميں سے كوئى ايك سفر پر جائے تو باپ زيادہ حقدار ہے، يہ شارع كى جانب سے مقرر كردہ نہيں، بلكہ بچے كى مصلحت كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا گيا ہے، كہ بچہ اپنے باپ كے ساتھ رہے.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" باپ كے سفر كرنے كى بنا پر ماں كا حق پرورش ساقط ہونے كى كوئى دليل اور نص نہيں، اگر كسى نے كہا ہے تو يہ باطل ہے، ہم نے جو آيات اور احاديث پيش كى ہيں ان كى تخصيص ہے، اور فاسد رائے كے ساتھ دونوں كى مخالفت بھى ہے اور چھوٹے بچوں كے متعلق سوء نظر ہے، اور سفر و پڑاؤ كے ساتھ انہيں ضرر و نقصان دينا، اور بچے اور اس كى ماں سے دور كرنا ہے؛ بلاشك و شبہ يہ ايسا ظلم ہے جو كسى پر مخفى نہيں " انتہى

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 10 / 146 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" طلاق يافتہ شخص كے بچے كا اگر متعين ہو جائے كہ وہ ماں اور باپ ميں سے كسى ايك كے علاقے اور شہر ميں ہو باپ ايك شہر ميں اور ماں دوسرے شہر ميں بستى ہو تو عام علماء مثلا قاضى شري حاور امام مالك و شافعى اور امام احمد وغيرہ كے ہاں بچے كا باپ زيادہ حقدار ہے چاہے لڑكا ہو يا لڑكى حتى كہ علماء كا كہنا ہے كہ:

اگر باپ كہيں دور منتقل ہونے كے ليے سفر كرنا چاہے اور ضرر مقصود نہ ہو تو وہ بچے كا زيادہ مستحق ہے، كيونكہ بچے كا باپ كے ساتھ رہنا زيادہ صحيح اور اسى ميں مصلحت ہے كيونكہ اس سے نسب كى حفاظت ہو گى اور مكمل تربيت و تعليم اور ادب بھى، اور اس ليے كہ ماں كے ساتھ رہنے ميں بچے كى مصلحت ضائع ہوتى ہے " انتہى

ديكھيں: جامع المسائل ( 4 / 422 ).

اس بنا پر جب بچے كى كوئى شرعى مصلحت متعين ہو جائے كہ اس كا كسى ايك كے ساتھ رہنا ہى صحيح ہے تو اسے جس ميں مصلحت ہو اس كے سپرد كر ديا جائيگا چاہے وہ ماں ہى كيوں نہ ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" والدين ميں سے جسے بھى ہم مقدم كرينگے تو يہ بچى كى مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے كيا جائيگا، جس سے خرابى دور ہو، ليكن اگر دونوں ميں سے جس كے ساتھ رہنے ميں خرابى پيدا ہوتى ہو اور بچى ميں فساد پيدا ہوتا نظر آئے تو بلاشك و شبہ دوسرے كى پرورش ميں دينا بہتر اور اولى ہوگا.

حتى كہ جب چھوٹا بچہ ماں يا باپ ميں سے كسى ايك كو اختيار كرتا ہے تو ہم اسے بھى بچے كى مصلحت كى خاطر مقدم كرتے ہيں كہ اس سے فساد و خرابى دور ہو، فرض كريں اگر باپ زيادہ قريب ہے ليكن وہ بچے كا خيال نہيں ركھ سكتا بلكہ ماں اس كى ديكھ بھال زيادہ كريگى تو ہم بچے كے اختيار كو نہيں ديكھيں گے، كيونكہ بچہ تو عقلا كمزور ہے، اس ليے وہ دونوں ميں سے كسى ايك كو اس ليے اختيار كرتا ہے كہ وہ اس كے خواہش كے موافق ہے، اور بچے كا مقصد فسق و فسجور اور برے لوگوں كى صحبت اختيار كرنا اور اپنے ليے فائدہ مند چيز دين اور علم اور ادب و صنعت و حرفت وغيرہ سے دور بھاگنا ہے، اس ليے وہ اپنى خواہش كے مطابق والد كو اختيار كر ليتا ہے، ليكن دوسرا اس كى اصلاح اور تربيت كريگا، جب بھى ايسى صورت حال بن جائے تو بچے كى حالت كو خراب كرنے والے شخص كے سپرد نہيں كيا جائيگا "

اسى ليے امام شافعى اور امام احمد رحمہم اللہ كے اصحاب كا كہنا ہے:

" كسى فاسق و فاجر كے ليے حق پرورش نہيں ہے، اور حسن بن يحيي كا بھى يہى كہنا ہے، اور امام مالك رحمہ اللہ كا قول ہے:

" ہر وہ شخص جسے حق پرورش حاصل ہو چاہے وہ باپ ہے يا كوئى رشتہ دار يا عصبہ ليكن وہ پرورش كرنے كا اہل نہيں اور نہ ہى جائے امن ہے اور نہ خود مامون ہے تو اسے حق پرورش حاصل نہيں ہوگا، بلكہ حق پرورش اسے حاصل ہوگا جس ميں يہ اوصاف ہوں چاہے وہ دور كا رشتہ دار ہى ہو، كيونكہ اس ميں بچے كى مصلحت مدنظر ركھى جائيگى كہ كون شخص بچے كے ليے زيادہ فائدہ مند اور بہتر ہے، كيونكہ كئى باپ ايسے ہيں جو اپنے بيٹے كو ہى ضائع كر بيٹھتے ہيں.

ايسے ہى علماء كا يہ كہنا ہے كہ ـ يہ الفاظ قاضى ابو يعلى كے ہيں ـ بچے كو والدين ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كا اس صورت ميں موقع ديا جائيگا جب والدين اس كے بارہ ميں مامون ہوں، اور يہ معلوم ہو كہ اگر كسى ايك كے بھى پاس ہو تو اسے كوئى ضرر اور نقصان نہيں ہوگا، ليكن جو اس كى ديكھ بھال نہيں كرتا اور اسے كھيل كود ميں لگے رہنا ديتا ہے اس كے متعلق بچے كا اختيار نہيں رہنے ديا جائيگا "

حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:

" جب وہ سات برس كى عمر كے ہوں تو انہيں نماز كا حكم دو، اور دس برس كى عمر ميں نماز نہ پڑھيں تو انہيں مار كى سزا دو، اور ان كے بستر عليحدہ كر دو "

لہذا جب والدين ميں سے كوئى ايك اسے اس كا حكم ديتا ہو اور دوسرا نہيں ديتا تو بچہ اس كے پاس رہےگا جو اسے نماز ادا كرنے كا حكم ديتا ہے دوسرے كے پاس نہيں؛ كيونكہ اسے يہ حكم دينے والا بچے كى تربيت ميں اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا مطيع ہوگا، ليكن دوسرا اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا نافرمان ہے.

اس ليے بچے كى پرورش كے سلسلہ ميں اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى كرنے والے شخص كو اللہ اور اس كے رسول كى اطاعت وفرمانبردارى كرنے والے پر مقدم نہيں كيا جا سكتا، بلكہ اگر والدين ميں سے ايك اللہ تعالى اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے اوامر و نواہى كى پابندى كرتا اور دوسرا پابندى نہيں كرتا يا پھر ايك واجب پر عمل كرتا ہے اور دوسرا اس كے ساتھ حرام فعل كا مرتكب ہوتا ہے تو واجب پرعمل كرنے والے كو مقدم كيا جائيگا چاہے بچے نے دوسرے كو ہى اختيار كيوں نہ كيا ہو، بلكہ اس نافرمان تو كسى بھى حال ميں اس بچے كا ولى ہى نہيں بن سكتا.

كيونكہ جو كوئى بھى بچے كى ولايت ميں واجب پر عمل نہيں كرتا تو اسے بچے پر ولايت ہى حاصل نہيں ہوگى، بلكہ يا تو اس كى ولايت ختم كر كے اس كے قائم مقام كو ولى بنا ديا جائيگا، يا پھر اس كے ساتھ واجب پر عمل كرنے والے كو ملا ديا جائيگا.

چنانچہ جب والدين ميں سے كسى ايك ساتھ اس كے حصول كى بنا اللہ تعالى اور اس كى رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى حاصل ہوتى ہو تو بچہ اس كے ساتھ ملا ديا جائيگا، اور دوسرے كے ساتھ حصول سے اطاعت حاصل نہ ہوتى ہو تو پہلے كو مقدم كيا جائيگا.

يہ حق وراثت كى جنس سے نہيں كہ يہ بھى رشتہ دارى و نكاح اور ولاء سے حاصل ہوتا ہو، اگرچہ وارث حاضر اور عاجز ہو، بلكہ يہ تو ولايت كى جنس سے تعلق ركھتا ہے جو كہ نكاح و مال كى ولايت ہے جس ميں واجب پر عمل كرنے كى حسب امكان قدرت پائى جاتى ہو.

فرض كريں اگر بچے كے باپ نے دوسرى شادى كر لى يعنى بچے كى ماں كى سوكن لے آيا اور بچے كو ماں كى سوكن كے پاس چھوڑےگا جو بچے كى مصلحت پر مدنظر نہيں ركھے گى بلكہ بچے كو تكليف اور نقصان دےگى يا پھر مصلحت پورى كرنے ميں كوتاہى كريگى، ليكن اس كے مقابلہ ميں بچے كى ماں بچے كى مصلحت پورى كرنے كے ساتھ ساتھ بچے كو تكليف بھى نہيں ديگى تو يہاں قطعى طور پر حق پرورش بچے كى ماں كو حاصل ہوگا، بالفرض اگر اختيار مشروع ہو اور وہ ماں كو اختيار كر لے، تو پھر اگر ايس نہ ہو تو كيا ہوگا ؟

يہ معلوم ہونا چاہيے كہ شارع سے كوئى ايسى نص نہيں ملتى جو والدين ميں سے كسى ايك كو مطلقا مقدم كرنے كى دليل بنتى ہو، اور نہ ہى مطلقا والدين ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنا ہے.

علماء اس پر متفق ہيں كہ كسى ايك كو مطلقا متعين نہيں كيا جائيگا، بلكہ كوتاہى اور عداوت و فساد و خرابى و ضرر كى صورت ميں نيكى صلہ رحمى اور عدل و احسان اور واجب پر عمل كرنے والے كو مقدم كيا جائيگا " انتہى

ديكھيں: جامع المسائل ( 3 / 420 ـ 421 ) مزيد آپ ابن المفلح كى كتاب الفروع ( 9 / 345 ) اور ابن قيم كى زاد المعاد ( 5 / 424 ) كا مطالعہ كريں.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس مسئلہ ميں صحيح بات يہى ہے كہ: ہميں جب معلوم ہو كہ بچہ اپنى ماں كا محتاج ہے، يا پھر يہ معلوم ہو جائے كہ باپ بچے كو نقصان و ضرر دےگا تو بلاشك و شبہ اس صورت ميں باپ كى بجائے ماں حق پرورش كى زيادہ حقدار ہے؛ كيونكہ بچے كا اپنى ماں كے ساتھ رہنا اور ماں كا دودھ پينا كسى دوسرے كے دودھ پينے سے بہتر ہے، اور پرورش كے متعلق يہ مدنظر ركھا جائيگا كہ بچے كے ليے كون زيادہ بہتر ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 542 ).

حاصل يہ ہوا كہ:

باپ كا حق پرورش مقيد ہے كہ اگر بچے يا اس كى ماں كو ضرر و نقصان دينے كا قصد نہ ہو تو پھر باپ كو حق پرورش ديا جائيگا، ليكن اگر بچے كا اپنى ماں كے ساتھ رہنے ميں شرعى مصلحت ہو تو ماں كے ساتھ رہےگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب