الحمد للہ.
اول:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص حج کرے اور بیہودہ و فسق کے کاموں سے دور رہے تو وہ [گناہوں سے پاک صاف]ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اسکی ماں نے اُسے آج جنم دیا ہو) بخاری: (1449) اور مسلم: (1350)
یہاں ہم دو امور کی طرف متوجہ کرنا چاہیں گے:
پہلی بات: حج مبرور کی جزا یہی ہے، چنانچہ جس شخص نے حرام مال کے ذریعے حج کیا، یا حج خالص اللہ کیلئے نہیں تھا، یا اسکی طرف سے بیہودگی و فسق صادر ہوگیا تو اسکا حج مبرور نہیں ہوگا، اور وہ اپنے جنم دن کی طرح پاک صاف ہوکر واپس نہیں آئے گا۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"حج مبرور کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: جس حج میں ریا کاری، شہرت، بیہودگی، فسق نہ ہو، اور حلال کمائی سے کیا جائے، وہ حج مبرور کہلاتا ہے"
" التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد " ( 22 / 39 )
جبکہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ حج مبرور سے مراد مقبول حج ہے، اور اسکے قبول ہونے کی دلیل یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی دوبارہ نافرمانی مت کرے، اور حقدار افراد کو انکے حقوق پہنچا دے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (26242) کا مطالعہ کریں۔
دوسری بات: حج سے حقوق اور واجبات مثلاً: کفارہ اور قرضہ وغیرہ معاف نہیں ہوتا، جیسے کہ پہلے سوال (138630)کے جواب میں گزر چکا ہے ۔
دوم:
جس مسلمان کو اللہ تعالی نے مناسک حج ادا کرنے کی توفیق دی ہے ، اسے چاہئے کہ اللہ تعالی سے ڈرتا رہے کہ کہیں اسکی نیکی رائیگاں نہ چلی جائیں، یہ خوف اس لئے نہیں ہونا چاہئے کہ اللہ کی رحمت سے بالکل نا امید ہو جائے، بلکہ یہ اس لئے ہے کہ کہیں نیکیاں کرنے کے بعد شیخیاں نہ بکھیرتا پھرے، اور اللہ تعالی سے سچے دل کیساتھ دعا کرے کہ اللہ تعالی اسکی نیکی کو قبول فرمائے، اور یہ آس لگائے کہ اللہ تعالی اسکے اعمال صالحہ کو قیامت کے دن ملاقاتِ الہی کیلئے قبول فرمالے، اسی لئے اللہ تعالی نے مؤمنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ * أُوْلَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ )
ترجمہ: وہ لوگ جن کے دل اللہ کی طرف سے دئیے ہوئے میں سے دیتے وقت ڈر رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے ٭ یہی لوگ نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں، اور وہ نیکیوں کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔[المؤمنون: 60 - 61]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: ( وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ) [المؤمنون: 60 ] کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب نوشی اور چوریاں کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں، صدیق کی بیٹی! اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو صوم و صلاۃ کے پابند ہیں، اور صدقہ بھی کرتے ہیں ، لیکن اسکے باوجود وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں بارگاہِ الہی میں رد نہ ہو جائیں، حقیقت میں یہی لوگ نیکیوں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں)
ترمذی: ( 3175 ) وابن ماجہ: ( 4198 ) اور البانی" صحيح ترمذی" میں اسے صحیح کہا ہے۔
چنانچہ مؤمنین کے خوفِ الہی نے انہیں رحمتِ الہی سے مایوس نہیں کیا، بلکہ اللہ سے اجر و ثواب کی امید کیساتھ حسن ظن بھی رکھا، ان مؤمنین کو عدمِ قبولیت کا خوف دو وجوہات کی بنا پر لاحق ہوا:
1- وہ اپنے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ شاید ہم نے عمل صحیح طریقہ سے نہیں کیا
2- اور دوسری بات یہ ہے کہ انہیں اللہ سے اتنی عظیم محبت ہے [کہ وہ اپنے اعمال کو محبت کے مقابلےمیں کم تر سمجھتے ہیں]۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر مؤمن خوفزدہ رہے تو اسے قابل عذر سمجھنا چاہئے، اور اس عذر کی دو بنیادی وجوہات ہیں: ایک یہ کہ: اسے اپنی کمی کوتاہی کا علم ہے، اور دوسری یہ کہ: وہ سچی محبت کرتا ہے، کیونکہ سچا مُحب ہی اپنے محبوب کا قرب حاصل کرنے کیلئےمعذرت خواہانہ انداز میں ، محبوب سے شرم کھاتے ہوئے تمام ممکنہ وسائل استعمال کرتا ہے کہ کہیں محبوب میرے ساتھ وہی انداز نہ اپنائے جیسے میں نے اسکے ساتھ کمی کوتاہی کی ہے، کیونکہ سچا مُحب یہی سمجھتا ہے کہ میں جتنی بھی کوشش کر لوں وہ ذات میری کوششوں سے بالا تر کی حقدار ہے، اور آپ نے مخلوق میں دو محبت کرنے والوں کے درمیان ایسے معاملات دیکھے ہونگے "
" مدارج السالكين " ( 2 / 325 )
خلاصہ یہ ہے کہ:
آپ دونوں چیزوں کو بیک وقت جمع کریں اور ان میں سے کسی ایک کو بھی ترک نہ کریں:
پہلی چیز: اللہ کی مغفرت اور رحمت کے مقابلے میں اپنے گناہوں کو زیادہ مت سمجھیں، مؤمن توبہ استغفار، اور گناہوں کے مٹانے والے اعمال کے بارے میں کمی کے باعث خوفزدہ رہتا ہے، چنانچہ اس خوف کو مزید اطاعت گزاری کا باعث بنائیں، پھر ساتھ میں اللہ تعالی سے سچے دل کیساتھ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالی آپکی ان نیکیوں کو قبول بھی فرمائے، اور آپکو اپنا مقرب بنا لے، لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اپنے رب کی رحمت سے ناامید بالکل بھی نہیں ہونا۔
دوسری چیز: اللہ عز وجل کے بارے میں حسن ظن رکھیں، اللہ کی جانب سے معافی، کرم، اور وسیع تر رحمت کی امید رکھیں؛ چنانچہ آپ ہمیشہ احکامات الہی پر گامزن رہیں، شریعت الہی کی تعظیم کریں، اطاعتِ الہی میں سستی کا مظاہرہ مت کریں، اور ساتھ میں اللہ تعالی سے حسن ظن قائم رکھیں، کہ آپکی یہ نیکیاں قبول فرمائے، اور ان پر اجر وثواب سے نوازے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ متفق علیہ حدیث قدسی کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "(اللہ تعالی فرماتا ہے: میں اپنے بندے کیساتھ ایسا ہی معاملہ فرماتا ہوں جیسے وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے)
قرطبی رحمہ اللہ: "المفہم" میں کہتے ہیں کہ: " وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے " اس سے مراد یہ ہے کہ: دعا کرتے وقت اللہ سے دعا کا جواب ملنے کا گمان، اور توبہ کے وقت قبولیت کا گمان، استغفار کے وقت بخشش کا گمان، اور عبادات مکمل شروط کیساتھ ادا کرنے کے بعد وعدہ الہی کے مطابق اجر ملنے کا گمان، مراد ہے، انہوں نے کہا کہ: ایک دوسری حدیث میں اس مفہوم کی تائید بھی ہوتی ہے: (تم اللہ تعالی سے دعا مانگو تو قبولیت کے یقین سے مانگو)
پھر انہوں نے کہا کہ: اسی لئے ہر بندے کو کوئی بھی عبادت کرتے ہوئے یہ کامل یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی اسکی عبادت ضرورت قبول فرمائے گا، اور اسکی بخشش بھی کردیگا، کیونکہ اللہ تعالی نے اس چیز کا وعدہ دے دیا ہے، اور اللہ تعالی اپنے کسی وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، چنانچہ اگر کسی نے یہ نظریہ اپنا لیا ، یا گمان کر لیاکہ اللہ تعالی اسکے عمل کو قبول نہیں کریگا، اور یہ عمل اسکے لئے مفید ثابت نہیں ہوگا، تو حقیقت میں یہی رحمتِ الہی سے مایوسی ہے ، اور یہ مایوسی کبیرہ گناہ ہے، لہذا اگر کوئی شخص اسی حالت میں مر گیا تو اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوگا جیسا کہ اس نے گمان کیا تھا، جیسے کہ اسی حدیث کی دیگر اسانید کے ساتھ یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ: (میرا بندہ میرے بارے میں جو چاہے گمان کر لے)
پھر انہوں نے کہا کہ:گناہوں پر اصرار کیساتھ بخشش کی امید لگانا محض اپنے آپکو دھوکہ دینے والی بات ہے، جو انسان کو مرجئہ کے عقائد سے ملا دیگی"
" فتح الباری " ( 13 / 386 )
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کے نیک اعمال قبول فرمائے، اور آپکے حج کو مبرور بنائے، اور اس پر آپکو ڈھیروں اجرو ثواب سے نوازے۔
واللہ اعلم.