سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

ایک شخص صبح ناشتہ کر لے اور پھر پتا چلے کہ آج تو عاشورا تھا تو وہ کیا کرے؟

سوال

اگر عاشورا کے دن کوئی کھا پی لے اور بعد میں اسے علم ہو کہ آج عاشورا کا دن تھا تو کیا اس کیلیے درج ذیل احادیث کو دلیل بنا کر دن کا باقی حصہ روزے کی نیت سے گزارنا جائز ہے: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آواز لگانے والے نے عاشورا کے دن آواز لگائی: جس شخص نے آج روزہ رکھا ہے تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے اور جس نے کھا پی لیا ہے تو وہ بقیہ دن مت کھائے" پھر پوچھا: "کیا تم میں سے کسی نے آج کھانا کھایا ہے؟" تو راوی کہتے ہیں: "ہم نے کہا: ہم میں سے کچھ نے کھانا کھایا ہے اور کچھ نے نہیں کھایا" راوی کہتے ہیں: "تم اپنا روزہ مکمل کرو؛ چاہے کسی نے کھانا کھایا ہے یا نہیں اور مدینے کے آس پاس کے لوگوں تک بھی پیغام پہنچا دو کہ وہ بھی باقی دن میں کھانے پینے سے احتراز کریں اور روزہ مکمل کریں، تا کہ وہ بھی عاشورا کا روزہ رکھ سکیں، چنانچہ اگر ان میں سے کسی نے دن کے ابتدائی حصے میں کھا پی لیا ہے تو وہ دن کے آخری حصے میں مت کھائے"۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

نفل روزے کی دن کے وقت نیت کرنا جائز ہے، لیکن فرض روزے کیلیے نیت رات کے حصے میں کرنا ضروری شرط ہے۔

"نفل روزہ دن کے وقت نیت کرنے سے صحیح ہو گا، بشرطیکہ  نیت کرنے سے پہلے کھانے پینے جیسا کوئی اور روزے کے منافی کام نہ کیا ہو، چنانچہ اگر نیت کرنے سے پہلے کوئی ایسا کام کر لیا جو روزے کے منافی ہو تو پھر اس کا روزہ صحیح نہیں ہو گا، اس بات میں کسی کا اختلاف بھی نہیں ہے " انتہی
"الملخص الفقہی" (1/393)

ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب یہ بات ثابت ہو گئی تو پھر نفل روزے کی دن کے وقت نیت کرنے کی شرط یہ ہے کہ نیت کرنے سے پہلے کچھ کھایا پیا نہ ہو، اور نہ ہی کوئی ایسا عمل کیا ہو جو روزے کے منافی ہو، چنانچہ اگر کوئی ایسا کام کر لیتا ہے تو پھر  اس کا دن کے وقت نفل روزے کی نیت کرنا درست نہیں ہو گا، اس کے متعلق ہمارے علم کے مطابق کسی کا اختلاف نہیں ہے" انتہی
"المغنی" (3/ 115)

اور جن احادیث میں لوگوں کو عاشورا کا روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے  کہ وہ روزہ مکمل کریں چاہے کسی نے دن کے وقت کھایا پیا ہے یا نہیں، ان کے بارے میں یہ توجیہ پیش کی ہے کہ اس وقت عاشورا کا روزہ رکھنا فرض اور لازمی تھا۔

اور فرض روزے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ: اگر کسی شخص کو دن کے وقت علم ہو کہ آج فرض روزہ ہے تو اس کیلیے دن کا بقیہ حصہ کھائے پئے بغیر مکمل کرنا ضروری ہے۔

چنانچہ عینی  رحمہ اللہ عاشورا کے روزے سے متعلق کہتے ہیں:
"عاشورا کا روزہ پہلے فرض عین تھا"ا نتہی
"عمدة القاری" (10/304)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عاشورا کے روزے سے متعلق تمام احادیث کو جمع کر کے مجموعی طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ عاشورا کا روزہ فرض تھا؛ کیونکہ عاشورا کا روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا اور پھر اس کی تاکید بھی کی گئی، پھر تاکید میں مزید پختگی پیدا کرنے کیلیے باقاعدہ صدا لگانے والے کو بھیجا گیا، اس کے  بعد تاکید میں مزید اضافے کیلیے یہ بھی فرما دیا کہ کھانے پینے سے ہاتھ روکے رکھیں، ایک جگہ تو یہ بھی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ بھی نہ پلائیں۔
نیز ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مسلم میں یہ قول ثابت ہے کہ: جب رمضان کےر وزے فرض کر دیے گئے تو  عاشورا کا روزہ چھوڑ دیا گیا، لیکن یہ واضح رہے کہ عاشورا کے روزے کا استحباب ختم نہیں ہوا، اس لیے عاشورا کا روزہ رکھنا مستحب ہے، اور استحباب کا وجود اس بات کا شاہد ہے کہ پہلے یہ روزہ فرض تھا" انتہی
" فتح الباری" (4/247)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس نے روزہ نہیں رکھا  تو وہ روزہ رکھ لے، اور جس نے کھانا کھا لیا ہے تو وہ بھی اپنا روزہ سورج غروب ہونے تک مکمل کرے) ایک روایت میں ہے کہ: (جس نے آج روزہ رکھا ہے تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے اور جس نے روزہ نہیں رکھا تو وہ دن کا بقیہ حصہ کھانے پینے سے باز رہے) ان دونوں روایات کا مطلب یہ ہے کہ:  جس کی روزہ رکھنے کی نیت تھی تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے اور جس شخص نے روزہ رکھنے کی نیت نہیں کی اور کچھ کھایا پیا  ہے یا نہیں تو وہ بھی اس دن کے احترام میں اس کا بقیہ حصہ بغیر کچھ کھائے پئے گزارے ، بالکل اسی طرح جو شخص شک کے دن روزہ نہ رکھے اور پھر یہ یقینی بات مل جائے کہ وہ دن رمضان کا حصہ ہے تو اس پر اس دن کے احترام میں اس کیلیے کھانا پینا جائز نہیں ہے" انتہی
"شرح صحيح مسلم" (8/13)

الباجی  رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[اس حدیث میں روزہ مکمل کرنے کا حکم  ایسے ہی ہے]جیسے کسی کو دن کے وقت علم ہو کہ یہ دن بھی رمضان کا حصہ ہے تو اس پر بقیہ دن بغیر کھائے پئے گزارنا ضروری ہے" انتہی
" المنتقى شرح الموطإ" (2/58)

لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو پھر عاشورا کا روزہ مستحب ہو گیا ، اس لیے عاشورا کے روزے پر یہ حکم لاگو نہیں ہوتا، بلکہ عاشورا کا حکم بھی دیگر تمام  نفل روزوں کی طرح ہے کہ دن کے وقت بھی اس روزے کی نیت ہو سکتی ہے، بشرطیکہ  نیت کرنے سے پہلے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جو روزے کے منافی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا کہ:
ایک شخص کو عاشورا کا علم 10 محرم کو دن کے وقت ہوا ، تو کیا اب اس کیلیے دن کا بقیہ حصہ کھانے پینے سے رکے رہنا صحیح ہے؟ یہ واضح رہے کہ اس شخص نے دن کے ابتدائی حصے میں کھایا پیا بھی ہے۔

تو انہوں نے جواب دیا:
"وہ اگر دن کا بقیہ حصہ بھی کھانے پینے ہاتھ روکے رکھے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس نے دن کے ابتدائی حصے میں کھایا پیا ہے، اور نفل روزے کی نیت دن کے وقت تب صحیح ہو گی جب اس نے نیت کرنے سے پہلے کچھ کھایا پیا نہ ہو، لیکن اگر کسی نے کوئی ایسا کام کر لیا ہے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس کیلیے دن کا بقیہ حصہ روزے کی نیت سے گزارنا صحیح نہیں ہے، چنانچہ اس بنا پر اگر اس نے دن کے ابتدائی حصے میں کھا پی لیا ہے یا کوئی ایسا کام کر لیا ہے جو روزے کے منافی ہے تو کھانے پینے سے ہاتھ روکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا" انتہی
" فتاوى نور على الدرب" (11/ 2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب