الحمد للہ.
اول:
لکھ کر طلاق دینے کے لیے شرط یہ ہے کہ طلاق دینے کی نیت بھی ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص طلاق لکھ تو دے لیکن طلاق دینے کی نیت نہ کرے، بلکہ نیت یہ ہو کہ اس کے گھر والوں کو رنج پہنچانا ہے، یا انہیں ڈرانا دھمکانا ہے، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی، اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (72291) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
غصے کی حالت میں طلاق کے متعلق تفصیل ہے، یہ تفصیلات پہلے سوال نمبر: (96194) اور (22034) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔
ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اتنا شدید غصہ کہ جس کے ساتھ انسان کو یہ ہی نہ پتہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، ایسے غصے کی وجہ سے طلاق نہیں ہوتی، اسی طرح وہ شدید غصہ جس نے انسان کو طلاق دینے پر ابھارا اور مجبور کیا چاہے اسے پتہ ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے، ایسے غصے میں دی گئی طلاق بھی طلاق نہیں ہوتی۔
نیز اتنا ہلکا غصہ کہ جس کی وجہ سے انسان طلاق کا ارادہ نہیں کرتا، تو ایسے غصے میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی۔
راجح قول کے مطابق اگر کوئی تین یا دو طلاقیں اکٹھی دیتا ہے تو وہ ایک ہی ہوتی ہے۔
تو آپ کے سوال سے یہ لگتا ہے کہ آخری طلاق واقع نہ ہو گی۔
جبکہ اس سے پہلے والی یعنی دوسری طلاق کے متعلق وہ تفصیل ہے جو پہلے گزر چکی ہے؛ چنانچہ طلاق دیتے ہوئے اگر ہمارے بیان کردہ غصے جیسا غصہ ہو طلاق نہیں ہو گی، اور اگر معمولی غصہ تھا تو پھر ایک طلاق ہو جائے گی۔
یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ اللہ سے ڈریں اور غصے کی حالت میں اپنی زبان کو طلاق سے روکیں؛ کیونکہ طلاق اس طرح کی حرکتوں کے لیے نہیں بنائی گئی کہ آپ اپنے گھر کو اجاڑ دیں، اور ویران کر دیں۔
واللہ اعلم