جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

نئی مسلمان ہونے والی نصرانی بچے والی عورت سے شادی کرنا

20106

تاریخ اشاعت : 16-05-2010

مشاہدات : 6832

سوال

میری ایک بہت ہی اچھی دوست دوماہ قبل مسلمان ہوئي ہے ، وہ پہلے بھی شادی شدہ تھی اوراس کا نصرانی خاوند سےایک بچہ بھی ہے ، اس کےقبول اسلام کے بعد اس کی شادی باطل ہے اوراسلام قبول کرنے کے بعد اسے اپنے بچے کی دیکھ بھال کا بھی حق حاصل ہے ۔
میں اس سے شادی اوراس کے بچے کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے والدین ایسا کرنے کی اجازت نہيں دیتے ، میں فخر سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اس عورت کو ھدایت دینے میں مجھے استعمال کیا ، لیکن مجھے اب مشکلات کا سامنا ہے ۔
ایک طرف تو میرے والدین اس عورت سے شادی کرنے کی مکمل طور پر مخالفت کرتے ہیں ، اس لیے کہ وہ کسی اورملک کی ہے اوراس کی عادات اوررسم ورواج بھی مختلف ہیں اورپھر پہلے خاوند سے ایک بچہ بھی ہے ۔
اوردوسری طرف مجھے یہ بھی علم ہے کہ اس عورت کو اس کی زندگی اوراس کے دین میں بہت ہی زيادہ تعاون کی ضرورت ہے ، اور میں اس سے شادی کرکے اس کا تعاون کرنا اورمددگار بننا اوراس کے بچے کی پرورش اوردیکھ بھال کرنا چاہتا ہوں ۔
میری گزارش ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں آپ یہ بتائيں کہ کیا میں یہ شادی کرلوں یا کہ اپنے والدین کے کہنے کے مطابق شادی نہ کروں ، والدین کے اس شادی سے انکار کا صرف ایک ہی سبب ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھتی ہے اوراس کی ثقافت اوررواج مختلف ہيں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

والدین کا اپنی اولاد پر بہت ہی عظیم حق ہے اسی لیےاللہ تعالی نے والدین سے حسن سلوک کرنے کاحکم اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جیسا کہ مندرجہ ذيل آیت میں ہے :

اورجب ہم نے بنی اسرائيل سے وعدہ لیا کہ تم اللہ تعالی کے سوا دوسرے کسی کی عبادت نہ کرنا اورماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ۔۔۔ البقرۃ ( 83 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

اوراللہ تعالی کی عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی اورکو شریک نہ ٹھراؤ ، اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ النساء ( 36 ) ۔

اورایک جگہ پر ارشادی باری تعالی کچھ اس طرح ہوتا ہے :

آپ کہہ دیجئے کہ آؤ میں تم کو وہ چيزيں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے ، وہ یہ کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی چيز کو شریک مت ٹھراؤ ، اورماں باپ کے ساتھ احسان کرو الانعام ( 151 ) ۔

اوراللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے :

اورآپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا ، اورماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا پھر دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائيں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ، نہ انہيں ڈانٹ ڈپٹ کرنا ، بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چيت کرنا الاسراء ( 23 ) ۔

اس لیے والدین کے ساتھ نیکی اوراحسان کرنا اوران کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب سے عظیم اعمال میں سے ہے اورایسا کرنا سب سے اچھی اورافضل خصلت ہے ۔

یہ تو معلوم ہی ہے کہ کسی معین عورت سے شادی کرنا واجب نہيں جب کسی عورت سے شادی کی رغبت اوراس کے والدین کی مرضي اور رضامندی میں اختلاف پیدا ہوجائے تو پھر بلاشک والدین کی رضامندی کو مقدم رکھنا چاہیے ۔

ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا میں شادی شدہ ہوں اورمیری والدہ اسے طلاق دینے کا مطالبہ کرتی ہے ۔

ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا :

والد جنت کا درمیانہ دروازہ ہے اگر توچاہے تو اس دروازے کو ضائع کردے یا اس کی حفاظت کر ۔

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1900 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2089 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے ۔

ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کا تو طلاق کے متعلق یہ کہنا تھا جو کہ ہمارے اس مسئلہ سے بھی کئي درجےاوپر ہے کیونکہ طلاق ایک عظیم اوربہت بڑا مسئلہ ہے ، اوراسی لیے صحیح قول تو یہی تھا کہ اس میں ان کی اطاعت نہیں ہے ۔ دیکھیں الآدات الشرعیۃ لابن مفلح ( 1 / 447 ) ۔

اوپرکی سطور میں جوکچھ بیان کیا گيا ہے اس کی بنا پر آپ اس عورت سے شادی کرنے کے متعلق اپنے والدین کو راضی کریں ، لیکن اگر وہ پھر بھی اس سے شادی نہ کرنے پر اصرار کریں تو پھر ہماری نصیحت یہ ہے کہ آپ ان کی اطاعت کرلیں ، اور ان شاءاللہ عورت کوکوئي اوراچھا اورصالح خاوند مل جائے گا وہ محروم نہیں رہے گی ، اورالحمد للہ آپ کو اس کی ھدایت اورقبول اسلام کا اجر ملے گا ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب