سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

لمبى قميص ( سعودى لباس ) پہننا يا چادر باندھنا افضل ہے

20125

تاریخ اشاعت : 11-04-2008

مشاہدات : 6023

سوال

كيا لمبى قميص ( سعودى توب ) پہننى اور چادر باندھنى افضل ہے يا كہ سلوار قميص ( پاكستانى لباس ) پہننا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے لباس كى مثل ہے، يا كہ صرف يہ عرب اور پاكستان كے ممالك ميں عادات سے متعلق ہے ؟
اور اگر انسان يورپى لباس كى بجائے دوسرا لباس پہن سكتا ہو تو كيا سلوار قميص اور توب چادر افضل ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قميص اور دھوتى بھى پہنى ہے اور سلوار قميص بھى، ليكن ہمارے علم كے مطابق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پاكستانى طريقہ كے مطابق قميص نہيں پہنى.

اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ عربى لباس پہننا امت كى عادات اور رواج اور خصوصيت كى حفاظت ہے، اور اسے دوسروں كى عادات ميں پگل جانے سے محفوظ ركھےگا، اور بلاشك يورپى لباس سے يہى اچھا ہے.

ليكن اس كے ساتھ يہ عادات اور رواج ميں شمار ہوتا ہے، اور ہر علاقے اور ملك كى عادات اور رواج ہوتى ہيں، اور جس ملك ميں مسلمان بس رہا ہے وہاں كى رسم و رواج اور عادات پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ فى ذاتہ حرام چيز پر مشتمل نہ ہى اور نہ بطور وصف حرام ہو، چنانچہ نہ تو ريشم پہننى جائز ہے اور نہ ہى تنك اور شفاف و باريك لباس پہننا جو ستر كو واضح اور ظاہر كے، يا پھر جو لباس كفار كے ساتھ مخصوص ہے وہ بھى پہننا جائز نہيں، يا ريشم سے بنا ہوا ہو.

اسى طرح شہرت والا لباس بھى پہننا جائز نہيں ـ اور يہ وہ لباس ہے جسے پہن كر لوگوں كے ہاں وہ شہرت حاصل كرے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى شہرت والا لباس پہنا اللہ تعالى روز قيامت اسے ذلت والا لباس پہنائيگا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4029 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سن ابو داود حديث نمبر ( 3399 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن ابو عوانہ نے درج ذيل الفاظ زيادہ روايت كيے ہيں:

" پھر اسے آگ ميں جلايا جائيگا "

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى لباس شہرت پہنا اللہ تعالى روز قيامت اسے ذلت والا لباس پہنائيگا "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3606 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2905 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب