اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اللہ تعالی نے کسی بھی حرام اور گندی چیز کو حرام قرار دیتے ہوئےاس کے بدلے میں اچھی اور جائز چیز بھی عنائت فرمائی ہے۔

201672

تاریخ اشاعت : 26-05-2014

مشاہدات : 10663

سوال

ہمیں کسی بھی حرام چیز کا حکم بیان کرتے ہوئے ایک جملہ سننا پڑتا ہے: "اسکا متبادل کیا ہے؟" جیسے کہ ہم نے سگریٹ نوشی کا حکم ، حرمت بیان کیا تو مخاطب کہہ دیتا ہے: اکا کوئی متبادل بھی بتائیں؛ تو ایسے لوگوں کو کیسے جواب دیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس مسئلہ پر گفتگو دو اصولوں پر ہوگی:

پہلا اصول:

اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے ان کیلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا، اور گندی چیزوں کو ان کیلئے حرام بنا دیا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ )

ترجمہ: جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی اُمی ہے، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ رسول انہیں نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے، ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام کرتا ہے، ان کے بوجھ ان پر سے اتارتا ہے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ الأعراف/ 157

ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے: ( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ... )

ترجمہ: لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کےلئے کیا کچھ حلال کیا گیا ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کردی گئی ہیں۔۔۔ المائدة/ 4

کچھ علماء کا کہنا ہے کہ: "اللہ تعالی نے جس چیز کو بھی حلال قرار دیا ہے، وہ جسمانی اور دینی ہر اعتبار سے اچھی اور مفید ہے، اور جس چیز کو بھی اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے، وہ گندی اور جسمانی اور بدنی اعتبار سے نقصان دہ بھی ہے"

ماخوذ از: "تفسير ابن كثير" (3 /488)

ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ )

ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرنے والے ہو تو جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں کھانے کو عطا کی ہیں وہی کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ البقرة/ 172

چنانچہ اللہ تعالی نے پاکیزہ چیزوں پر اکتفاء اور گندی چیزوں سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، پھر اسکے بعد اللہ تعالی کی طرف سے پاکیزہ چیزوں کے حلال کرنے کی نعمت پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔

دوسرا اصول:

یقینا اللہ تعالی نے کسی بھی چیز کو حرام قرار دیا، تو اس سے اچھا متبادل بھی رکھا ہے، جو اسکی ضرورت کو پورا کرتا ہے، اسکی دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: اہل جاہلیت کیلئے دو دن تھے جن میں وہ خوب کھیل کود کرتے، چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا: (تمہارے کھیلنے کیلئے دو دن تھے، اور اللہ تعالی نے تمہیں اس سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں: عید الفطر، اور عید الاضحی)

اسے نسائی (1556) وغیرہ نے بیان کیا ہے، اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔

اسی لئے ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جو شخص شرعی اسرار اور احکامات میں فکر ونظر دوڑائے تو اسے اوامر ونواہی میں بالکل واضح طور پر دیکھائی دیگا؛ چنانچہ شریعت نے جب بھی کوئی چیز حرام قرار دی تو اس سے اچھا اور مفید متبادل بھی دیا، اور لوگوں کیلئے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایسی اشیاء جائز قراردیں جن کی وجہ سے حرام چھوڑنا آسان ہو جائے، مثال کے طور پر: تازہ کھجوروں کی خشک کھجوروں کیساتھ خرید و فروخت منع قرار دی، اور انہیں "بیع العرایا" کی اجازت دے دی، کسی اجنبی لڑکی کی طرف دیکھنے سے منع کیا، جبکہ ہونیوالے منگیتر، معالج اور ڈاکٹر کیلئے دیکھنا جائز قرار دیا، شطرنج اور پانسے وغیرہ باطل مقابلوں میں حاصل ہونیوالے انعام کو حرام قرار دیا، جبکہ مفید مقابلوں دوڑ، اور نیزہ بازی سے حاصل ہونیوالے انعام کو جائز قرار دیا، اسی طرح ریشمی لباس حرام قرار دیا، جبکہ ضرورت کے مطابق تھوڑا بہت استعمال کرنے کی اجازت دے دی، شریعت نے سود کے ذریعے مال کمانے کو حرام قرار دیا، لیکن ان کیلئے بیع السلم جائز قرار دی، شریعت میں روزے کے دوران بیوی سے جماع حرام ہے، لیکن رات کے وقت جائز قرار دیا؛ جسکی وجہ سے دن میں ترکِ جماع آسان ہوگیا، ایسے ہی زنا حرام ہے لیکن دوسری، تیسری، اور چوتھی شادی جائز ہے، جبکہ لونڈیاں جتنی مرضی رکھو؛ جسکی وجہ سے زنا ترک کرنا انتہائی آسان ہو گیا، شریعت نے فال نکالنا حرام قرار دیا جبکہ دعائے استخارہ کی شکل میں انہیں اسکا متبادل بھی دیا، اور دونوں میں کوسوں کا فاصلہ ہے، شریعت میں اپنی خونی رشتہ داروں سے نکاح حرام ہے، لیکن چچا، پھوپھی، ماموں، اور خالہ کی بیٹیوں سے جائز ہے، ایسے ہی حائضہ سے جماع حرام ہے، لیکن مباشرت جائز ہے، حتی کہ جماع کے علاوہ سب کچھ کرنے کی اجازت دے دی، اسی وجہ سے حیض کی حالت میں انکے لئے ترکِ جماع بالکل آسان ہوگیا، جھوٹ بولنا حرام ہے، لیکن ذو معنی بات جائز ہے، اگر کسی کو ذو معنی بات کرنے کا ڈھنگ ہوتو کبھی بھی اسے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہ پڑے، اس بات کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ بھی کیا: (ذو معنی بات کے ذریعےجھوٹ بولنے سے کفایت ہے ) شریعت نے لوگوں پر قول و فعل میں تکبر حرام کیا، جبکہ جنگ میں مصلحت اور جہاد کے اہداف سے موافقت کے باعث جائز قرار دیا، ہر کچلی والا درندہ جانور، اور پنجے والا ہر پرندہ حرام ہے، اور اسکے بدلے میں تمام انواع و اقسام کے جانور اور پرندے حلال ہیں، مجموعی طور پر :شریعت نے کوئی بھی نقصان دہ اور خبیث چیز حرام قرار دینے کے بعد اسکے متبادل کے طور پر اس سے مفید اور اچھی چیز حلال قرار دی، اسی طرح انہیں کسی قسم کا حکم دیا تو اسکی تعمیل میں معاونت بھی کی ، چنانچہ اللہ تعالی کی رحمت بھی ان پر شاملِ حال ہوگئی، اور مکلف بنانا آسان ہوگیا" انتہی

ماخوذ از: "إعلام الموقعين" (2/ 113) اسی طرح دیکھیں: "أحكام أهل الذمة" (3/ 1239-1240) ، "روضة المحبين" (ص 8-9)

خلاصہ کلام:

جسکا دل کسی بھی خبیث اور محرم کام کی طرف مائل ہو تو اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اس بُرے کام سے روکے، کیونکہ اچھی چیزوں میں ان سے کفایت موجود ہے، اور جسکے اہل خانہ اس قسم کی چیزوں کا مطالبہ کریں تو اسکے لیے واجب ہے کہ انہیں اللہ کی طرف سے مباح چیزوں کی طرف متوجہ کرے، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جب کبھی اہل فسق و فجور کی طرف سے کسی بری چیز کا اظہار کیا جائے تو ہم اسکا متبادل تلاش کرنے کیلئے کوشش شروع کردیں، اور "نیکوٹین "پر مشتمل سگریٹ کی جگہ ہم "پودینہ"پر مشتمل سگریٹ ایجاد کر ڈالیں، وغیرہ ؛ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر حجت پوری کردی ہے، وہی کمال علم اور حکمت والا ہے؛ اس نے کسی بھی چیز کو حرام کیا تو تمام لوگوں کو اپنی رحمت کے باعث اس حرام کا محتاج بھی نہیں بنایا، اور آخر کار حرام کی طلب کیلئے اپنی حجت کو مکمل کردیا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

"ایک مسلمان کو چاہئے کہ جب اسکے اہل خانہ اور بچے اس قسم کی کسی چیز کا مطالبہ کریں تو وہ اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمات کی طرف متوجہ کرے، اور اسی کی روشنی میں انکے حقوق ادا کرے، اور انہیں ان تعلیمات سے ہٹ کر نہ جھانکنے دے، اگر پھر بھی وہ راضی نہ ہوں تو لا حول ولا قوۃ الا باللہ، لیکن ایک بات ذہن میں رکھے جسکے اہل خانہ اللہ کی وجہ سے ناراض ہوگئے تو اللہ تعالی سب کو راضی کرنے پر قادر ہے"

ماخوذ از: "مجموع الفتاوى" (25/323)

مزید فائدے کیلئے سوال نمبر (103523) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب