اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

گنجے پن سے متاثر شخص کیلئے وگ پہننے اور وضو میں اس پر مسح کرنے کا حکم ۔

205282

تاریخ اشاعت : 14-03-2016

مشاہدات : 7114

سوال

سوال: میرے ایک قریبی عزیز مکمل طور پر گنجے پن کا شکار ہیں، اور وہ وگ استعمال کرنا چاہتے ہیں، یہ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے جس میں وگ کو سر کی جلد کیساتھ چپکا دیا جاتا ہے، چنانچہ وگ روزانہ ہٹانی نہیں پڑتی، اب ہمیں اس کے بارے میں شرعی حکم کا علم نہیں ہے، اور اس سے متعلق احکام غسل اور وضو کے بارے میں کیا ہوگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خواتین کی بجائے مردوں کیلئے گنجا پن کوئی عیب کی بات نہیں ہے؛ اور نہ ہی کوئی ایسی دلیل ملتی ہے کہ مردوں کو گنجے پن کی وجہ سے وگ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے! حتی  کہ جو علمائے کرام خواتین کیلئے عیوب چھپانے کی خاطر وگ کے استعمال کو  جائز قرار دیتے ہیں ، ان کے موقف کے مطابق بھی مردوں کو وگ پہننے کی اجازت نہیں ہے۔

شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"مرد ہوں یا عورتیں سب  کیلئے وگ پہننا جائز نہیں ہے۔

عورتوں کیلئے یہ جائز نہیں ہے کیونکہ وگ پہننے کی وجہ سے دھوکہ دہی کا اندیشہ ہے، کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوگا کہ یہ اس کے قدرتی بال ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، جو کہ دھوکہ دہی اور حقائق چھپانے کے زمرے میں آتا ہے۔

مردوں کیلئے تو کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اگر کسی عورت  کے سر پر بال بالکل بھی نہ ہوں تو وہ وگ پہن سکتی ہے؛ اس لئے کہ یہ عورت وگ پہننے پر مجبور ہے، اور یہ اسکی ضرورت ہے، جبکہ مرد کو  کسی حالت میں بھی وگ پہننے کی اجازت نہیں ہے" انتہی
" المنتقى من فتاوى الفوزان " (75/1)

مزید معلومات کیلئے آپ سوال نمبر: (141074) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

وگ پہننے کی حرام صورتوں میں بھی جو شخص وگ پہنے تو  وہ اس پر دوران وضو مسح نہیں کر سکتا؛ کیونکہ گناہ کے کاموں میں رخصت نہیں ہے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فصل: اگر پہنا ہوا موزہ حرام تھا، مثال کے طور پر غصب شدہ تھا یا ریشم کا بنا ہوا تھا، تو  [حنبلی] مذہب میں صحیح موقف کے مطابق اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہوگا، اور اگر مسح کر کے نماز پڑھ بھی لے تو وضو اور نماز دوبارہ دہرائے گا؛ کیونکہ غصب شدہ موزہ پہن کر اس نے نا فرمانی کی ہے، اس لیے نافرمانی کی حالت میں اسے مسح کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، بالکل اسی طرح جیسے گناہ کیلئے سفر کرنے والے شخص کو سفر کی رخصتوں پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، چنانچہ مسافر گناہ کیلئے سفر کرے تو ایک دن اور رات سے زیادہ مسح نہیں کر سکتا؛ کیونکہ ایک دن اور رات مسح کرنے کی رخصت سفر کیساتھ مختص نہیں ہے، اور اسے گناہ کے سفر کی وجہ سے  تین دن مسح کرنے کی رخصت حاصل نہیں ہے، چنانچہ وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اس کیلئے سفر کی وجہ سے کوئی رخصت ہی نہیں ملی، لہذا وہ نمازوں کو جمع اور قصر بھی نہیں کر سکتا" انتہی
" المغنی " (1/214)

اس کے بعد مزید کہتے ہیں کہ :
"حرام عمامہ مثال کے طور پر غصب شدہ یا ریشم کے بنے ہوئے  عمامے پر مسح کرنا جائز نہیں ہے، اس کی وجہ بھی وہی ہے جو ہم نے غصب شدہ موزے کے بارے میں بیان کی، اور اگر کوئی عورت عمامہ پہن لے تو اس کیلئے اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس میں مردوں سے مشابہت ہے، لہذا عورت کیلئے عمامہ پہننا ہی جائز نہیں ہے، اور اگر عورت نے کسی عذر کی وجہ سے عمامہ پہنا تو ایسے واقعات نادر ہوتے لیکن ایسی صورت کا حکم الگ ہوگا" انتہی
" المغنی " (1/222)

 اگر موزے اور عمامے کے بارے میں یہ حکم ہے جن کے بارے میں مسح کرنے کی اجازت احادیث میں بھی موجود ہے، اب عمامہ اور موزے کو اصل بنا کر ان پر قیاس کرتے ہوئے وگ پر مسح کرنے کا مسئلہ اخذ کیا جائے تو  وگ  حرام ہونے کی صورت میں اس پر مسح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب