جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

صبح اور شام کے اذکار

سوال

میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے لیے صبح اور شام کے اذکار سے متعلقہ تمام تر صحیح احادیث ایک جگہ جمع کر دیں، اس طرح صبح اور شام کے اذکار کے لیے ایک معتمد حوالہ ہمارے لیے بن جائے گا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

صبح اور شام کے اذکار کے متعلق جن صحیح احادیث کو ہمارے لیے جمع کرنا ممکن ہو سکا وہ درج ذیل ہیں:

  • صحیح بخاری (6306) میں شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (سید الاستغفار یہ ہے کہ آپ کہو: اَللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْت َ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ 
    [ترجمہ: یا اللہ ! تو میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں مجھ پر تیری نعمتیں ہیں میں اس کا اقرار کرتا ہوں ۔ میری مغفرت فرما دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ نہیں معاف کرتا۔] آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص اس پر کامل یقین رکھتے ہوئے دن کے وقت کہے اور وہ شام سے پہلے اس دن فوت ہو جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہے، اور جو شخص اسے رات کے وقت کامل یقین رکھتے ہوئے کہے اور وہ صبح ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہے۔)
  • امام مسلم حدیث نمبر: (2692) کے تحت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو کوئی شخص صبح اور شام کے وقت سو بار کہے: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ   [ترجمہ: اللہ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ]تو قیامت کے دن کوئی بھی اس سے افضل عمل لے کر نہیں آئے گا، ما سوائے اس شخص کے جس نے یہی الفاظ کہے ہوں یا اس سے زیادہ بار الفاظ کہے ہوں)
  • اسی طرح امام مسلم حدیث نمبر: (2709) کے تحت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! کل رات کو مجھے بچھو نے کاٹ لیا تھا اس کی بڑی تکلیف محسوس کر رہا ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اگر تم شام کے وقت  أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ  [ترجمہ: میں تمام مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں]کہتے تو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچتا)
  • امام احمد نے اپنی مسند احمد کی حدیث نمبر: (6812) اور امام ترمذی نے اپنی سنن ترمذی کی حدیث نمبر: (3529) کے تحت ایک روایت نقل کی اور امام ترمذی نے اسے حسن بھی قرار دیا کہ : ابو راشد حبرانی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو احادیث سنی ہیں ان میں سے کوئی حدیث ہمیں بھی سنائیں، تو انہوں نے ایک صحیفہ ہمارے آگے رکھا اور کہا: یہ وہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے لکھوا کر دیا تھا، جب میں نے اسے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا : ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیں جسے میں صبح اور شام میں پڑھا کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "ابوبکر تم پڑھا کرو:  اَللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي ، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ  [ترجمہ: یا اللہ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے غیب اور حاضر ہر چیز کو جاننے والے، تیرے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں، تو ہی ہر چیز کا پروردگار اور مالک ہے۔ میں اپنے نفس کے شر، شیطان کے شر اور اس کی شراکت داری سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور اس بات سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے آپ پر برائی ڈھاؤں یا کسی مسلمان تک برائی کو لے جاؤں]۔
  • امام ابو داود اپنی کتاب سنن ابو داود کی حدیث نمبر: (5074) کے تحت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور شام کے وقت یہ دعائیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي ، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي ، اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ ، وَمِنْ خَلْفِي ، وَعَنْ يَمِينِي ، وَعَنْ شِمَالِي ، وَمِنْ فَوْقِي ، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي [ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ یا اللہ ! اپنے دین ،دنیا، اہل خانہ اور مال و دولت کے متعلق عافیت اور معافی کا طلب گار ہوں۔ یا اللہ ! میرے عیب چھپا دے ۔ مجھے میرے اندیشوں اور خطرات سے امن عنایت فرما ۔ یا اللہ ! میرے آگے ، پیچھے ، دائیں ، بائیں اور اوپر سے میری حفاظت فرما ۔ اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے اُچک لیا جاؤں ۔]
    اس حدیث کو البانی نے صحیح ادب المفرد اور دیگر کتب میں صحیح قرار دیا ہے۔
  • امام ابو داود: (5068)، امام ترمذی: (3391) اور امام نسائی سنن کبری : (10323) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، جب صبح ہوتی تو یہ دعا پڑھتے تھے  اَللَّهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا ، وَبِكَ أَمْسَيْنَا ، وَبِكَ نَحْيَا ، وَبِكَ نَمُوتُ ، وَإِلَيْكَ النُّشُورُ  [ترجمہ: یا اللہ ! ہم نے تیرے ( فضل کے ) ساتھ صبح کی اور تیرے ( فضل کے ) ساتھ شام کرتے ہیں ۔ تیرے ہی (فضل )سے زندہ اور تیرے ہی نام پر مرتے ہیں اور تیری ہی طرف اٹھ کر جانا ہے ۔ ] اور شام کے وقت یہ کلمات یوں کہتے   اَللَّهُمَّ بِكَ أَمْسَيْنَا ، وَبِكَ أَصْبَحْنَا ، وَبِكَ نَحْيَا ، وَبِكَ نَمُوتُ ، وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ  [ترجمہ: یا اللہ ! ہم نے تیرے ہی ( فضل کے ) ساتھ شام کی اور تیرے ہی ( فضل کے ) ساتھ صبح کی ، تیرے ہی (فضل )سے زندہ اور تیرے ہی نام پر مرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے]
    اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
  • اسی طرح امام بخاری حدیث نمبر: (6040) کے تحت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( جس نے یہ کلمہ   لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  [ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لئے بادشاہی ہے اور اسی کے لئے تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ] دن میں سو دفعہ پڑھا اسے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی اور اس دن وہ شام تک کے لئے شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا اور کوئی شخص اس دن اس سے بہتر کام کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، سوا اس کے جو اس سے زیادہ کرے ۔
  • امام ابو داود حدیث نمبر: (5077) کے تحت ابو عیاش رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: (جو شخص صبح کے وقت یہ کہہ لے  لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  [ترجمہ: ایک اکیلے اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس کا کوئی ساجھی نہیں ، بادشاہی اسی کی ہے ، تعریف اسی کی ہے اور وہ ہر شے پر خوب قادر ہے ] تو اسے اولاد اسماعیل میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ہو گا ۔ اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، اس سے دس غلطیاں مٹائی جائیں گی ، اس کے دس درجات بلند کیے جائیں گے اور شام تک کے لیے شیطان سے حفاظت میں رہے گا اور اگر شام کو یہ کہہ لے ، تو صبح تک کے لیے یہی کچھ ہے ۔)
    اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
  • سنن نسائی: (227) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ فاطمہ کو فرمایا: (میں تمہیں جو وصیت کر رہا ہوں اس کو سننے سے کوئی چیز تمہارے لیے رکاوٹ نہیں ہے، تم صبح اور شام کے وقت کہا کرو:   يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ ، أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ ، وَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ  [ترجمہ: اے ہمیشہ زندہ رہنے والے اور اس کائنات کو قائم رکھنے والے! تیری رحمت کے صدقے میں مدد کی طلب گار ہوں، میرے تمام معاملات سنوار دے، اور مجھے میرے اپنے رحم و کرم پر ایک پلک جھپکنے کے برابر بھی مت چھوڑنا۔])
    اس حدیث کو البانی نے سلسلہ صحیحہ (227) میں حسن قرار دیا ہے۔
  • امام مسلم: (2723) نمبر حدیث کے تحت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی شام ہوتی تو کہتے:   أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، رَبِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَسُوءِ الْكِبَرِ ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابٍ فِي النَّارِ وَعَذَابٍ فِي الْقَبْرِ  [ترجمہ: ہم نے شام کی اور ساری بادشاہی (شام کے وقت بھی) اللہ کی ہوئی، سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی اور اسی کے لیے ہر طرح کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ یا اللہ! میں تجھ سے اس رات کی اور اس رات کے بعد آنے والے ہر لمحے کی بھلائی مانگتا ہوں اور تجھ سے اس رات کی اور اس کے بعد ہر لمحے کی برائی سے پناہ طلب کرتا ہوں، یا اللہ! میں سستی اور انتہائی بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں، یا اللہ! میں جہنم میں کسی بھی قسم کے عذاب سے اور قبر میں کسی بھی قسم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔]
    اور جب صبح ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم صرف " أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ " کے الفاظ کو:    أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ   [ترجمہ: ہم نے صبح کی اور ساری بادشاہی (صبح کے وقت بھی) اللہ کی ہوئی] سے بدل دیتے تھے، بقیہ ذکر اسی طرح پڑھتے تھے۔
  • امام احمد : (18967) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خادم سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو بندہ بھی صبح اور شام کے وقت تین تین بار کہے:  رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا  [ترجمہ: میں اللہ کو بطور رب اور اسلام کو بطور دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور نبی مان کر راضی ہوں] تو اللہ تعالی پر حق بنتا ہے کہ اللہ تعالی بھی اسے روزِ قیامت راضی کر دے۔)
    مسند احمد کے محققین نے اس حدیث کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔
  • عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا: (تم صبح اور شام کے وقت تین تین بار سورت اخلاص، سورت الفلق اور سورت الناس پڑھو، تمہیں ہر چیز سے کافی ہو جائیں گی)
    اس حدیث کو ترمذی نے حدیث نمبر: (3575) کے تحت روایت کیا اور اسے صحیح قرار دیا، نیز ابو داود : (5082) نے بھی روایت کیا ہے، امام نووی نے اس حدیث کو اپنی کتاب الاذکار کے صفحہ ( 107) پر صحیح قرار دیا جبکہ ابن حجر نے "نتائج الافکار" نے (2/345) میں اور اسی طرح البانی نے صحیح ترمذی میں اسے حسن کہا ہے۔
  • عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (جو شخص ( شام کو ) تین بار یہ دعا پڑھ لے اسے صبح تک کوئی ناگہانی مصیبت نہیں آئے گی   بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ   [ترجمہ: اللہ کے نام سے ، وہ ذات کہ اس کے نام سے کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں؛ نقصان نہیں دے سکتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے] اور جس نے صبح کے وقت تین بار یہ دعا پڑھ لی اسے شام تک کوئی ناگہانی مصیبت نہیں آئے گی )
    اس حدیث کو ابو داود : (5088) نے روایت کیا ہے۔

جبکہ امام ترمذی : (3388) نے اسے ان الفاظ میں روایت کیا ہے: (ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو ہر روز صبح و شام کو  بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ  [ترجمہ: اللہ کے نام سے ، وہ ذات کہ اس کے نام سے کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں؛ نقصان نہیں دے سکتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے] تین بار پڑھے اور اسے کوئی چیز نقصان پہنچا دے۔) امام ترمذی نے اسے حسن صحیح اور غریب قرار دیا ہے۔ جبکہ ابن قیم نے اسے " زاد المعاد" (2/338)میں اور البانی نے "صحیح ابو داود" میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

  • امام ابو داود: (5081) ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ : (جس نے صبح اور شام کے وقت سات بار یہ کہہ لیا   حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ، عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ  [ترجمہ: میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، میں نے اسی پر توکل کیا اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے۔]اللہ تعالی اس کی پریشانیوں میں اسے کفایت فرمائے گا ۔)

یہ روایت تو موقوف ہے؛ لیکن اس کا حکم مرفوع حدیث والا ہے، اس حدیث کی سند کو شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ نے جید قرار دیا ہے۔

  • امام مسلم (2726) سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم صبح سویرے نماز پڑھ کر ان کے پاس سے چلے گئے اس وقت وہ اپنی نماز پڑھنے والی جگہ بیٹھی تھیں، پھر دن چڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے تو وہ [اسی طرح] بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا: "تم اب تک اسی حالت میں بیٹھی ہوئی ہو جس پر میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟" انہوں نے عرض کی: جی ہاں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے [ہاں سے جانے کے]بعد میں نے چار کلمے تین بار کہے ہیں، اگر ان کو ان کے ساتھ تولا جائے جو تم نے آج کے دن اب تک کہا ہے تو یہ ان سے وزن میں بڑھ جائیں:  سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ   [ترجمہ: پاکیزگی ہے اللہ کی اور اس کی تعریف کے ساتھ، جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہے اور جتنی اس کو پسند ہے اور جتنا اس کے عرش کا وزن اور جتنی اس کے کلمات کی سیاہی ہے]۔)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب