الحمد للہ.
کسی بھی بدعت کو رد کرنے کیلیے سب سے پہلے سنت کو ٹھوس دلائل کیساتھ ثابت کیا جائے، عقیدے سے متعلق بنیادی اصولوں کو واضح کیا جائے، نیز حصولِ علم کی بنیاد کتاب و سنت کی روشنی میں صحیح منہج پر ہو۔
چنانچہ علم کی مضبوط بنیاد مختلف فتاوی اور اِدھر اُدھر سے پڑھ کر نہیں رکھی جا سکتی، بلکہ اس کیلیے مرتب انداز میں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کیلیے طالب علم اپنی عمر کے کئی سال حفظ، تحقیق، فہم، اور حصول علم کیلیے صرف کرتا ہے، تب جا کر اسے شبہات اور علمائے کرام کی گفتگو سمجھنے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے، نیز اس قسم کی پیچیدہ اور سنگین الجھنوں کا باعث بننے والے بنیادی نکات سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
چنانچہ ہم یہاں پر انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کریں گے کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے، نیز اس بات کا رد بھی ذکر کریں گے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے، اور آنے والی تمام گفتگو اس مسئلے سے متعلق خصوصی تحقیق سے ماخوذ ہے۔
اس سے ہمیں عقیدے کے مسائل کے متعلق گفتگو کرنے کا کچھ سلیقہ بھی حاصل ہو گا، نیز یہ بھی ہمارے لیے واضح ہو گا کہ ان مسائل کا دائرہ اور گہرائی کتنی زیادہ ہے اور ان کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کی کتنی ضرورت ہے۔
چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ:
دس ایسے دلائل ہیں جو قرآن مجید کے کلام اللہ اور غیر مخلوق ہونے کی دلیل ہیں، درج ذیل ہیں:
پہلی دلیل:
فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: بیشک تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا، وہ رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے، پھر دن رات کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے، سورج، چاند اور تارے سب اسی کے حکم کے مطابق مسخر ہیں، وہی پیدا کرتا ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے، جہانوں کا پالنہار اللہ بہت ہی برکتوں والا ہے۔ [الأعراف : 54]
یہ آیت دو اعتبار سے دلیل بنتی ہے:
اول: اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں "خلق" اور "امر" کے درمیان فرق کیا ہے، اور یہ دونوں اللہ تعالی کی صفات ہیں ، اللہ تعالی نے ان دونوں صفات کو اپنی طرف منسوب کیا ہے، چنانچہ "خلق" یعنی تخلیق اللہ تعالی کی عملی صفت ہے جبکہ "امر"[حکم دینا]اللہ تعالی کی قولی صفت ہے، [اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ]دو عطف شدہ چیزیں اصولی طور پر باہمی غیر ہوتی ہیں ایک نہیں ہوتیں، بشرطیکہ اس سے متصادم قرینہ موجود نہ ہو ، لیکن یہاں تو مذکورہ دونوں صفات میں فرق ہونے کے دلائل موجود ہیں، جیسے کہ درج ذیل نکتے سے معلوم ہوتا ہے۔
دوم: تخلیق اللہ تعالی کے حکم سے ہی ہوتی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
ترجمہ: جب وہ کسی چیز [کو پیدا کرنے] کا ارادہ کرے تو اس کا حکم صرف اتنا ہوتا ہے: "ہو جا" تو وہ ہو جاتی ہے۔[يس : 82]
اس آیت کریمہ میں لفظ" كُنْ " اللہ تعالی کا حکم ہے، اگر اللہ تعالی کا یہ کلام ہی مخلوق ہے تو اس کی تخلیق کیلیے ایک اور حکم ہونا چاہیے تھا، پھر اس ایک اور حکم کی تخلیق کیلیے ایک تیسرا حکم ہونا چاہیے تھا، اس طرح تو لا متناہی سلسلہ نکل پڑے گا جو کہ سراسر باطل ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے جہمی اور معتزلی لوگوں کا رد کرنے کیلیے اسی آیت کو دلیل کے طور پر استعمال کیا تھا۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا تھا:
"اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ)
ترجمہ: وہی پیدا کرتا ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے ۔[الاعراف: 54]
اس آیت میں اللہ تعالی نے "خلق" اور "امر" کے درمیان فرق کیا ہے"
اس واقعہ کو حنبل نے "المحنہ" صفحہ: 53 میں نقل کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ:
فرمانِ باری تعالی :
أَتَى أَمْرُ اللَّهِ...
ترجمہ: اللہ تعالی کا حکم آگیا [النحل: 1]
لہذا اللہ کا حکم اللہ کا کلام ہے جو کہ قدرت سمیت مخلوق نہیں ہے، تم کتاب اللہ کے حصوں کو ایک دوسرے سے متصادم مت سمجھو"
اس واقعہ کو حنبل نے "المحنہ" صفحہ: 54 میں نقل کیا ہے۔
امام احمد نے مسئلہ خلقِ قرآن کا جواب لکھتے ہوئے متوکل کو اپنے مراسلے میں کہا تھا کہ:
"اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ )
ترجمہ: اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے اللہ کا کلام سننے تک پناہ دو، پھر اس کی پر امن جگہ تک پہنچاؤ؛ یہ اس لیے کہ وہ ایسی قوم سے ہیں جو نہیں جانتے[التوبہ: 6]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ)
ترجمہ: وہی پیدا کرتا ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے ۔[الاعراف: 54]
تو اللہ تعالی نے پہلے "خلق" یعنی تخلیق کا تذکرہ فرمایا، اور پھر "امر" یعنی حکم کا الگ سے ذکر فرمایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم دینا اور تخلیق دونوں الگ الگ چیزیں ہیں" انتہی
اسے امام احمد کے بیٹے صالح نے بیان کیا ہے اور ان کی یہ روایت " المحنہ " صفحہ : ( 120 – 121) میں موجود ہے۔
امام احمد سے پہلے ان کے استاد امام ، الحجہ، ثقہ الحافظ سفیان بن عیینہ ہلالی رحمہ اللہ نے ان آیات کو اسی مسئلے کی دلیل بنایا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی :
(أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ) [الاعراف: 54] اس آیت میں "خلق" سے مراد اللہ تعالی کی مخلوقات ہیں، اور "امر "سے مراد قرآن کریم ہے"
اس اثر کو امام آجری نے " الشريعة " (ص: 80) میں جید سند کے ساتھ سفیان بن عیینہ سے بیان کیا ہے۔
دوسری دلیل:
فرمانِ باری تعالی ہے: الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ
ترجمہ: رحمن نے قرآن سیکھایا اور انسان کی تخلیق فرمائی۔[الرحمن: 1 - 3]
ان آیات میں اللہ تعالی نے علم اور تخلیق دونوں میں تفریق فرمائی ہے، چنانچہ قرآن اللہ تعالی کا علم اور انسان اللہ تعالی کی تخلیق ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا علم غیر مخلوق ہوا۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: بیشک اللہ تعالی کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے، اور اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد بھی کی تو اللہ سے بچانے والا آپ کا کوئی والی اور مدد گار نہیں ہو گا۔[البقرة:120]
تو اس آیت میں اللہ تعالی نے قرآن کریم کو علم سے تعبیر فرمایا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالی کی طرف سے قرآن مجید ہی ملا تھا، اللہ تعالی کا علم مخلوق نہیں ہے؛ اگر اللہ تعالی کا علم مخلوق ہوتا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالی علم کو پیدا کرنے سے پہلے -نعوذ باللہ-بے علم تھا، اللہ تعالی ایسی ہر قسم کی بات سے پاک اور اعلی ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے معتصم کے دربار میں جہمیوں سے مناظرہ کرتے ہوئے یہی بات ذکر فرمائی تھی، چنانچہ اپنی رو دار ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"مجھے عبد الرحمن قزاز نے کہا: "پہلے اللہ تعالی تو تھا لیکن قرآن نہیں تھا"
میں نے الزامی جواب دیتے ہوئے کہا کہ: اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالی تو تھا لیکن اللہ کا علم نہیں تھا!!
یہ سن کر عبد الرحمن قزاز خاموش ہو گیا؛ کیونکہ اگر وہ یہ کہہ دیتا کہ اللہ تعالی تو تھا لیکن علم نہیں تھا تو وہ کافر ہو جاتا"
اس واقعہ کو حنبل نے " المحنة " (ص: 45) میں ذکر کیا ہے۔
اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کو یہ بھی کہا گیا:
"کچھ لوگ یہ سن کر کہ: "[قرآن] اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے" کہتے ہیں کہ: "تم سے پہلے یہ بات کس نے کی ہے؟ اور تم قرآن کریم کو مخلوق کس دلیل کی بنا پر نہیں مانتے؟"
تو امام احمد نے کہا : دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ
ترجمہ: آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو بھی جھگڑا کرے [آل عمران: 61] اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی چیز نہیں آئی"
اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"قرآن کریم اللہ تعالی کا علم ہے، چنانچہ جو شخص اللہ تعالی کے علم کو مخلوق سمجھتا ہے تو وہ کافر ہے"
اس اثر کو ابن ہانی رحمہ اللہ نے " المسائل " (2/ 153، 154) میں نقل کیا ہے۔
تیسری دلیل:
فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: اگر سمندر میرے رب کے کلمات کیلیے روشنائی بن جائیں تو اللہ تعالی کی گفتگو ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائیں، چاہے ہم اتنی ہی روشنائی مزید ہی کیوں نہ لے آئیں۔[الكهف: 109]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ )
ترجمہ: اور اگر زمین کے تمام درخت قلمیں اور سمندر روشنائی بن جائیں پھر مزید سات سمندر مہیا کیے جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں، بیشک اللہ تعالی غالب اور حکمت والا ہے۔ [لقمان:27]
یہاں اللہ تعالی نے واضح الفاظ میں -اور اللہ تعالی کی ہر بات حق ہے- فرمایا کہ اللہ تعالی کی گفتگو لا متناہی ہے، لہذا اگر اللہ تعالی کے پیدا کردہ سمندروں کو اللہ تعالی کی گفتگو لکھنے کیلیے روشنائی بنایا جائے، اللہ تعالی کے پیدا کردہ درختوں کو لکھنے کیلیے قلمیں بنایا جائے تو تمام سمندر ختم ہو جائیں، اور قلمیں گھس جائیں، لیکن اللہ تعالی کے کلمات ختم نہ ہو۔
بلکہ ان آیات میں اللہ تعالی کے کلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ اللہ تعالی کا کلام اللہ تعالی کی صفت اور علم ہے، نیز کلامِ الہی کو مخلوق کی فانی گفتگو پر قیاس نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ اگر اللہ تعالی کا کلام مخلوق ہوتا تو سمندروں کا پانی ختم ہونے سے پہلے فانی ہو جاتا، لیکن فنا ہونا مخلوق کی صفت ہے، ذات باری تعالی یا صفاتِ الہیہ فنا نہیں ہو سکتیں۔
چوتھی دلیل:
قرآن میں مجید میں اللہ تعالی کے جو نام ذکر ہوئے ہیں مثال کے طور پر : (اللہ، الرحمن، الرحیم، العلیم، الغفور، الکریم۔۔۔) دیگر اسماء بھی اللہ تعالی کے نام ہیں، اور یہ اللہ تعالی کے کلام سے تعلق رکھتے ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی اپنے یہ نام الفاظ و معانی سمیت خود ہی لکھے ہیں۔
نیز اللہ تعالی نے اپنی ذات کی تسبیح اور اللہ تعالی کے ناموں کی تسبیح میں یکسانیت بھی قرار دی ہے، جیسے کہ فرمایا:
( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى)
ترجمہ: اپنے بلند و بالا پروردگار کے نام کی تسبیح بیان کریں۔[الأعلى:1]
اسی طرح اللہ تعالی کی ذات سے مانگنا یا اللہ تعالی کے اسما سے مانگنے کو بھی یکساں قرار دیا اور فرمایا:
( وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا)
ترجمہ: اور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں ان کے ذریعے اللہ سے مانگو۔[الأعراف:180]
اسی طرح اللہ تعالی کی ذات کا ذکر کرنا یا اللہ تعالی کے اسما ءکا ذکر کرنا بھی یکساں قرار دیا اور فرمایا:
( وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا)
ترجمہ: اپنے رب کے نام کا ذکر صبح و شام کریں۔[الإنسان:25]
چنانچہ اگر مذکورہ بالا تسبیح ، دعا اور ذکر کسی مخلوق کیلیے ہوتی تو یہ اللہ کے ساتھ کفر ہوتا۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ "اللہ تعالی کا کلام مخلوق ہے"
تو اللہ تعالی کے اسمائے گرامی بھی مخلوق کے دائرے میں آئیں گے، اور ایسا کہنے والا ہماری پہلے بیان کردہ گفتگو کی وجہ سے کافر شمار ہو گا؛ کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کلام الہی کی تخلیق سے پہلے تھے ہی نہیں، نیز اللہ تعالی کے کسی بھی نام کی قسم اٹھانے والا مشرک متصور ہوتا؛ کیونکہ وہ مخلوق کی قسم اٹھا رہا ہے، جبکہ مخلوق اور خالق ایک نہیں ہیں۔
اس دلیل کو ائمہ سلف صالحین کی ایک جماعت نے یہ ثابت کرنے کیلیے ذکر کیا ہے کہ قرآن مجید مخلوق نہیں ہے، ان سلف صالحین میں درج ذیل بڑے نام آتے ہیں:
- امام الحجہ سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ
آپ کہتے ہیں کہ: ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [1] اللَّهُ الصَّمَدُ ) کو مخلوق کہنے والا کافر ہے۔
اس اثر کو عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے "السنہ" میں (13) نمبر پر جید سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ - اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص اللہ تعالی کے ناموں میں سے کسی کی قسم اٹھائے اور پھر قسم پوری نہ کرے تو اسے کفارہ دینا ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کے اسمائے گرامی مخلوق نہیں ہیں، تاہم کعبہ اور صفا و مروہ کی قسم اٹھانے والے پر کفارہ نہیں ہے؛ کیونکہ یہ مخلوق ہیں جبکہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی مخلوق نہیں ہیں"
اس اثر کو ابن ابی حاتم نے " آداب الشافعی " (ص: 193) میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ - امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
قرآن مجید میں اللہ تعالی کے اسمائے حسنی موجود ہیں، اور قرآن مجید اللہ تعالی کا علم ہے، چنانچہ قرآن کریم کو مخلوق کہنے والا شخص کافر ہے، لہذا اللہ تعالی کے اسماء کو بھی مخلوق کہنے والا بھی کفر کا مرتکب ہوتا ہے" انتہی
اس اثر کو امام احمد کے بیٹے صالح نے " المحنة " (ص: 52، 66 – 67) میں نقل کیا ہے۔
پانچویں دلیل:
اللہ تعالی نے قرآن مجید کے نزول سے متعلق بتلایا ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی جانب سے نازل ہوا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ)
ترجمہ: رب العالمین کی جانب سے ایسی کتاب کا نزول ہوا جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ [السجدة:2 ]
( وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ)
ترجمہ: اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کی گئی۔[الأنعام:114]
( قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ)
ترجمہ: آپ کہہ دیں: کتاب کو روح القدس نے تیرے رب کی جانب سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے۔[النحل:102]
[یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ] اللہ تعالی نے جتنی بھی چیزیں نازل کی ہیں ان میں سے صرف اپنے کلام کو ہی اپنی جانب منسوب کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام کو خصوصیت حاصل ہے، چنانچہ کلام کا نازل ہونا بارش یا لوہے وغیرہ کے نازل ہونے کی طرح نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ان چیزوں کے نازل ہونے کے بارے میں خبر تو دی ہے لیکن انہیں اپنی طرف منسوب نہیں فرمایا، لیکن اپنے کلام کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے؛ وجہ یہ ہے کہ کلام اللہ تعالی کی صفت ہے، اور صفت کو صرف موصوف کی طرف ہی منسوب کیا جاتا ہے کسی اور کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ، لہذا اگر یہ صفت مخلوق ہوتی تو خالق سے جدا ہوتی بلکہ خالق کی صفت بننے کے لائق ہی نہ ہوتی؛ کیونکہ اللہ تعالی اپنی مخلوق سے بالکل بے نیاز اور مستغنی ہے، مخلوقات میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ اللہ تعالی متصف نہیں ہے۔
چھٹی دلیل:
خولہ بنت حکیم سلمیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص [دورانِ سفر] کسی جگہ پڑاؤ کرے اور کہے: " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"[میں مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل ترین کلمات کی پناہ چاہتا ہوں] تو جب تک وہاں سے کوچ نہیں کر جاتا کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچائے گی) مسلم: (2708)
لہذا اگر اللہ تعالی کے کلمات مخلوق ہوتے تو ان کی پناہ چاہنا شرک تصور ہوتا؛ کیونکہ مخلوق کی پناہ طلب کرنا ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ غیر اللہ کی پناہ مانگنا شرک ہے، تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو واضح شرک کی تعلیم دیں، حالانکہ آپ تو خالص عقیدہ توحید لے کر آئے تھے!
تو اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کا کلام مخلوق نہیں ہے۔
نعیم بن حماد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مخلوق کی پناہ طلب نہیں کی جا سکتی، ایسے ہی انسانوں، جنوں اور فرشتوں کی کلام کی پناہ مانگنا بھی نا جائز ہے۔"
امام بخاری رحمہ اللہ اس کے بعد کہتے ہیں:
"اور اس حدیث میں دلیل ہے کہ اللہ تعالی کا کلام مخلوق نہیں ہے، اور اللہ تعالی کے سوا ہر چیز مخلوق ہے"
دیکھیں: " خلق أفعال العباد " (ص: 143)
ساتویں دلیل:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کلامِ الہی کو دیگر ہر کلام پر اتنا ہی بلند درجہ حاصل ہے جتنا اللہ تعالی کو اپنی ساری مخلوقات پر حاصل ہے) یہ حدیث حسن ہے، اسے عثمان دارمی رحمہ اللہ نے " الرد على الجهمیہ " میں حدیث نمبر: (287، 340) ، اور لالكائی نے حدیث نمبر: (557) میں روایت کیا ہے۔
اس حدیث میں سلف صالحین کے عقیدے -قرآن مخلوق نہیں ہے- کا دو انداز سے اثبات ہے:
پہلا انداز: اس میں کلام اللہ اور دیگر کلاموں میں تفریق بیان ہوئی ہے، ایک تو وہ کلام ہے جو صرف اللہ تعالی کی صفت ہے، اور دوسری مخلوق کی کلام جو کہ اللہ تعالی کی مخلوق ہے، چنانچہ اس حدیث میں جو کلام اللہ کی صفت تھی اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا گیا جبکہ دیگر ہمہ قسم کے کلام کو عام رکھا گیا، تا کہ اللہ تعالی کی طرف منسوب کلام کے سوا تمام کلام اس میں شامل ہو جائیں، اس طرح ثابت یہ ہوا کہ اگر ساری کلام ہی مخلوق ہوتی تو ان دونوں کے ما بین تفریق کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
دوسرا انداز: کلام اللہ اور دیگر کلاموں میں تفریق کی اور اس فرق کی ایسی نوعیت بیان کی گئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اور دیگر مخلوقات میں فرق ہے، اس طرح سے کلام الہی کا مقام و مرتبہ اور اوصاف وہی مقرر فرمائے جو ذات الہی کے مقام و مرتبے اور اوصاف والے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کلامِ مخلوق کا مقام و مرتبہ اور اوصاف مخلوق سے مناسبت رکھتے ہیں۔
اس انداز کو امام عثمان بن سعید دارمی رحمہ اللہ نے " الرد على الجهمية " (ص: 162 – 163) میں دلیل بنایا ہے، چنانچہ انہوں اسی طرح کی گفتگو کرنے کے بعد کہا:
"اس حدیث میں یہ بیان ہوا کہ قرآن مخلوق نہیں ہے؛ کیونکہ مخلوقات میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس کی درجہ بندی میں اللہ تعالی اور مخلوق جیسا تفاوت ہو؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخلوق کے درمیان پیدا ہونے والی تفریق ختم ہو سکتی ہے، لیکن اللہ تعالی اور مخلوقات کے درمیان تفریق کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے، بلکہ ختم کرنا تو دور کی بات ہے اس فرق کو شمار کرنا ہی ممکن نہیں ہے، اسی طرح اللہ تعالی کے کلام کی فضیلت بھی مخلوقات کے کلام پر ایسی ہی ہے ، لہذا اگر اللہ تعالی کا کلام بھی مخلوق ہوتا تو پھر دیگر تمام کلاموں میں اور کلامِ الہی میں ایسا فرق باقی نہیں رہتا جیسے کہ اللہ تعالی اور مخلوقات کے درمیان فرق ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مخلوق کا کلام اللہ تعالی کے کلام کے کروڑ ویں حصے کے برابر تو کیا اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتا، یہ بات خوب سمجھ لو؛ کیونکہ اللہ تعالی جیسا کوئی نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالی کے کلام جیسا کوئی کلام نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کلام لا سکتا ہے" انتہی
آٹھویں دلیل:
عقلی طور پر بالکل واضح اور صریح بات ہے کہ اگر اللہ تعالی کا کلام مخلوق ہوتا تو دو میں سے ایک صورت بنتی :
1- کلامِ الہی مخلوق ہونے کے باوجود اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔
2- کلامِ الہی مخلوق ہونے کے باوجود اللہ تعالی کی ذات سے الگ اور منفصل ہو۔
لیکن ہر دو صورت باطل اور سنگین ترین سے بڑھ کر بد ترین کفر ہے۔
پہلی بات اس لیے کفر ہے کہ: مخلوق ، خالق کے ساتھ قائم ہو، اور یہ چیز تمام اہل سنت سمیت اکثر اہل بدعت کے ہاں بھی باطل ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو ہر اعتبار سے اپنی مخلوقات کی کوئی ضرورت نہیں وہ ان سے بالکل مستغنی ہے۔
دوسری بات اس لیے کفر ہے کہ: اس سے اللہ تعالی کی صفتِ کلام کو معطل کرنا لازم آتا ہے؛ کیونکہ جیسے کہ پہلے گزرا ہے کہ صفت موصوف کے ساتھ ہی منسلک ہوتی ہے، موصوف سے جدا بالکل نہیں ہو سکتی، چنانچہ اگر صفت موصوف سے منسلک ہی نہ ہو تو پھر صفت اسی کی مانی جائے گی جس کے ساتھ منسلک ہے، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ -نعوذ باللہ-اللہ تعالی کوئی کلام ہی نہیں فرما سکتا، اور یہ واضح ترین کفر ہے، جیسے کہ ہم پہلے دلائل کے ساتھ یہ چیز بیان کر چکے ہیں۔
نویں دلیل:
یہ بات آپ پہلے جان چکے ہیں کہ صفت کسی اور سے ملے بغیر بذاتہٖ خود قائم نہیں ہو سکتی ، چنانچہ خالق کی صفت خالق کے ساتھ قائم ہو گی اور مخلوق کی صفت مخلوق کے ساتھ قائم ہو گی، لہذا حرکت، ٹھہراؤ، قیام، بیٹھنا، استطاعت، ارادہ، علم اور زندگی سمیت دیگر تمام صفات اگر کسی بھی چیز کی طرف منسوب ہوں تو یہ اسی کی صفات قرار پاتی ہیں، نیز صفات اپنے موصوف کے تابع ہوتی ہیں، چنانچہ جب ان صفات کو مخلوقات کی جانب منسوب کیا جائے تو یہ اسی انداز سے مخلوق کی صفت قرار پائے گی جس انداز سے منسوب کی جائے گی، اور جو صفات خالق کی جانب منسوب ہوں گی تو وہ اسی انداز سے خالق کی صفات قرار پائیں گی جیسے خالق کی طرف منسوب ہوں گی، اس سے معلوم ہوا کہ مخلوق کی طرف منسوب ہونے والی صفت مخلوق ہو گی، اور جب خالق کی جانب صفت منسوب کی جائے گی تو وہ مخلوق نہیں ہو گی۔
لہذا صفتِ کلام کا معاملہ بھی دیگر صفات والا ہے، یعنی اس کیلیے بھی موصوف کی ضرورت ہے، چنانچہ جس موصوف کی صفت کلام کرنا ہو گی تو وہ اسی موصوف کی صفت سمجھی جائے گی کسی اور کی صفت نہیں ہو گی، یہی وجہ ہے کہ اگر صفتِ کلام کو خالق کی طرف منسوب کیا جائے تو یہ خالق کی صفت قرار پائے گی، اور اگر صفتِ کلام کو کسی اور کی طرف منسوب کیا جائے تو یہ اسی کی صفت ہو گی، دونوں میں فرق یہ ہو گا کہ خالق کی صفات خالق کی طرح غیر مخلوق ہوں گی اور مخلوق کی صفات مخلوق کی طرح مخلوق ہی ہوں گی۔
اس تفصیل کے بعد اللہ تعالی نے اپنی طرف صفتِ کلام کو منسوب اور قوتِ گویائی سے خود کو متصف کیا ہے تو اللہ تعالی کا کلام بھی مخلوق نہیں ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا کلام اسی کے تابع ہے اور اللہ تعالی کی ذات مخلوق نہیں ہے، نیز صفات کے بارے میں گفتگو ذات کے بارے میں گفتگو سے تعلق رکھتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ: کلام مخلوق ہے۔
تو ہم کہیں گے کہ: اللہ تعالی مخلوق چیز سے متصف نہیں ہو سکتا وہ اس سے پاک ہے، بلکہ تم خود بھی اللہ تعالی کے بارے میں یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالی حوادث [فنا ہونے والی اشیا] سے متصف نہیں ہو سکتا، اور تم اللہ تعالی کو ان سے مبرا اور پاک سمجھتے ہو، تو اس بنا پر آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف صفتِ کلام منسوب ہی نہ کرو، [اگر تم صفتِ کلام منسوب نہیں کرو گے تو پھر] تم کتاب و سنت کے دلائل سمیت ان عقلی براہین کو مسترد کرنے کا ارتکاب کرو گے جو اللہ تعالی کیلیے صفتِ کلام ثابت کرتے ہیں۔
لیکن انہوں نے اللہ تعالی کے کلام کو غیر مخلوق ماننے کی بجائے اس سے بھی بڑی بات کر دی اور کہہ دیا کہ: "ہم اللہ تعالی کیلیے صفتِ کلام ثابت کرتے ہیں لیکن یہ کلام اللہ تعالی کا نہیں تھا بلکہ کسی اور چیز کی آواز تھی، چنانچہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے جب گفتگو کی تو وہ درخت میں پیدا کی گئی گفتگو تھی اللہ تعالی کی نہیں تھی، اس طرح سے ہم اللہ تعالی کو حوادث سے پاک قرار دیتے ہیں"
تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ: تم نے [اس واقعہ میں] صفتِ کلام کو اس جگہ کی طرف منسوب کیا ہے جہاں سے آواز پیدا ہوئی تھی، اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ یہ آواز درخت کی تھی، گویا کہ درخت نے موسی علیہ السلام کو کہا تھا کہ: ( يَا مُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ)[اے موسی! میں ہی اللہ رب العالمین ہوں] ایسے تو درخت کی اس بات اور فرعون ملعون کی بات: ( أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى) [میں تمہارا اعلی پروردگار ہوں]میں کوئی فرق نہیں ہے!! کیونکہ درخت کا کلام اللہ تعالی کی بجائے درخت کی صفت ہوئی، اسی طرح فرعون کا کلام فرعون کی صفت بنی، اور دونوں ہی یہاں پر ربوبیت کا دعوی کر رہے ہیں، اس سے تو یہ بھی لازم آتا ہے کہ موسی علیہ السلام کا یہ طریقہ کار بالکل غلط تھا کہ انہوں نے فرعون کی بات کو تو مسترد کر دیا، لیکن درخت کی بات کو مان لیا!!
آپ ذرا غور کیجیے -اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے- کہ یہ کتنا صریح کفر ہے، اور بدعتی لوگ اس میں ملوّث ہیں اور قرآنی حقائق کو تسلیم کرنے کیلیے تیار نہیں ہیں بلکہ الٹا قرآنی مفاہیم کو تبدیل کرنے کے در پے ہیں۔
اس عقلی دلیل کو امام احمد رحمہ اللہ نے معتصم کی موجودگی میں جہمی اور معتزلی لوگوں کے خلاف ذکر کیا، آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ موسی علیہ السلام کا قصہ پڑھیں، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے ہی بارے میں فرمایا: ( وَكَلَّمَ اللهُ مُوْسَى ) [اور اللہ تعالی نے موسی سے کلام کیا] تو یہاں پر اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے ساتھ محو گفتگو ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس میں موسی علیہ السلام کی شان بھی عیاں فرمائی، پھر ساتھ ہی یہ لفظ بھی ذکر کیا: ( تَكْلِيْمًا) [جو کہ مفعول مطلق ہے] اور صفت کلام کی تاکید کیلیے لایا گیا، پھر اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو مزید فرمایا: ( إِنَّنِيْ أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا) [بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود بر حق کوئی نہیں ہے] لیکن تم اس کا انکار کرتے ہو، چنانچہ اس طرح تو [إِنَّنِيْ کی ] یائے متکلم کا مرجع غیر اللہ بنے گا، جس کا معنی یہ ہو گا کہ کوئی مخلوق ربوبیت کا دعوی کر رہی ہے؟!لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی ہی پروردگار ہے"
اس واقعہ کو حنبل نے " المحنة " (ص: 52) میں ذکر کیا ہے۔
دسویں دلیل:
اس عقیدے کے اثبات میں سلف صالحین کے چند اقوال یہ ہیں:-
تابعین میں سے بلند پایہ امام عمرو بن دینا رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں ستر سالوں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ اور ان کے بعد والوں کو یہ کہتے ہوئے سن رہا ہوں کہ: اللہ تعالی خالق ہے، اس کے سوا ہر چیز مخلوق ہے، قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، اللہ تعالی اس کے ساتھ گویا ہوا اور یہ کلام اسی کی طرف لوٹ کر جائے گا۔"
اسی طرح عبد اللہ بن نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، اور قرآن کریم کو مخلوق کہنا غلط جملہ ہے"
اس اثر کو صالح بن امام احمد نے " المحنة " (ص: 66) میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ربیع بن سلیمان امام شافعی کے ساتھی اور شاگرد "خلقِ قرآن" سے متعلق امام شافعی کا حفص الفرد کے ساتھ ہونے والا مناظرہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس نے امام شافعی سے [مسئلہ] پوچھا، تو امام شافعی نے دلیل دے دی [اور مسئلہ بتلا دیا] ، پھر مناظرہ لمبا ہوتا گیا، امام شافعی رحمہ اللہ نے اس بات کے دلائل دئیے کہ قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے، نیز انہوں نے حفص الفرد کو کافر قرار دے دیا"
ربیع کہتے ہیں کہ: "اس مجلس کے بعد میں حفص الفرد کو ملا تو وہ کہنے لگا کہ: شافعی تو مجھے مار دینے لگے تھے"
اس اثر کو عبد الرحمن بن ابی حاتم نے " آداب الشافعی " (ص: 194 – 195) میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے اپنے والد اور ابو زرعہ رحمہما اللہ سے اہل سنت کے عقائد سمیت دیگر تمام علمائے کرام کے نظریات کے بارے میں پوچھا ، تو انہوں نے کہا:
ہم نے حجاز، عراق، شام، یمن سمیت تمام علاقوں کے علمائے کرام کو ان عقائد پر پایا کہ: ایمان قول و فعل کا نام ہے جو کہ کم زیادہ بھی ہوتا ہے، نیز قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور کسی اعتبار سے بھی مخلوق نہیں ہے"
اسے ابن طبری نے " السنہ " (1/ 176) میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
امام ابو قاسم ہبۃ اللہ بن حسن طبری لالکائی رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتاب: " شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة " میں ذکر کیا ہے کہ :
"یہ عقیدہ امت کے سابقہ و لاحقہ 550 علمائے کرام کا عقیدہ ہے، ان سب کا کہنا ہے کہ : قرآن کریم اللہ کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے، اور قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر ہے۔"
آپ کہتے ہیں کہ:
"صحابہ کرام کے علاوہ تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام پر مشتمل 550 سے بھی زائد علمائے کرام جن میں 100 کے قریب ائمہ کرام ہیں جن کی بات کو مستند سمجھا جاتا تھا اور ان کا مخصوص فقہی دائرہ تھا اپنے علاقوں اور وقت کے مختلف ہونے کے باوجود [اسی عقیدے کے قائل ہیں] اگر میں محدثین کے اقوال بھی ذکر کرنا شروع کروں تو ان کے ناموں کی تعداد کئی ہزاروں میں تک پہنچ جائے" انتہی
" السنہ " (493)
کچھ اختصار کے ساتھ ماخوذ از کتاب: " العقيدة السلفية في كلام رب البرية وكشف أباطيل المبتدعة الردية " (ص: 121-147)
اس بارے میں مزید جاننے کیلیے مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی جلد نمبر : 12 میں سے "القرآن كلام الله" اور اسی طرح ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب: "مختصر الصواعق المرسلة" ملاحظہ کریں۔
نیز اسی مسئلے سے متعلق ایک مفید مضمون بعنوان: " لمَ كان القول بخلق القرآن كفرًا ؟ والكلام النفسي؟" از شیخ عمرو بسیونی
واللہ اعلم.