الحمد للہ.
اول:
حیض کا خون سیاہ رنگ کا ہوتا ہے، خواتین اس کی امتیازی صفات جانتی ہیں، رنگت میں سیاہ، ماہیت میں گاڑھا،اور بد بو دار ہوتا ہے، اس کی بو عام خون کی بو سے الگ ہوتی ہے۔
چنانچہ جب مذکورہ صفات کا حامل خون دیکھیں تو یہ حیض کا خون ہے، چاہے یہ 7 دن آئے یا 8 دن، یا اس سے کم ہو یا زیادہ، تاہم یہ خون 15 دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔
دوم:
بادامی رنگ کی رطوبت جسے خاکی یا زردی مائل رنگت والی رطوبت کہا جاتا ہے، یہ اس وقت حیض ہی میں شمار ہو گی جب طہر کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے اس کا خروج ہو، اگرچہ یہ حیض کے خون سے مماثلت نہیں رکھتی لیکن پھر بھی یہ حیض میں ہی شامل ہے۔
بالکل اسی طرح اگر کسی عورت کی عادت بن چکی ہو کہ حیض کے شروع میں اسی قسم کی رطوبت خارج ہوہے، اور ساتھ میں درد بھی ہو، یا دوران حیض ایسی رطوبت آئے تو یہ بھی حیض کے خون میں شمار ہوگی۔
" الموسوعة الفقهية الكويتية" (18/295) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ حیض کے ایام میں خاکی یا پیلی رطوبت بھی حیض ہی شمار ہوگی؛ کیونکہ اصول یہ ہے کہ حیض کے ممکنہ دنوں میں کسی طرح کی رطوبت کو عورت دیکھے تو وہ حیض ہوگا، اسی کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہاکی وہ روایت بھی ہے کہ ان کے پاس کچھ خواتین کپڑے میں مٹیالے یا پیلے دھبوں والی روئی [حکم پوچھنے کیلئے]ارسال کرتیں، تو آپ انہیں کہتیں: "جلد بازی مت کرو، یہاں تک کے سفید رطوبت دیکھ لو"
عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ ہوتا کہ حیض سے طہارت اسی وقت ہو گی جب سفید رطوبت خارج ہو ،جبکہ مٹیالی اور پیلی رطوبت دونوں پیپ کی طرح ہوتی ہیں" انتہی
ابن عابدین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو یوسف نے حیض کی ابتدا میں مٹیالی رطوبت کو حیض میں شمار نہیں کیا، تاہم حیض کے آخری ایام میں اسے حیض میں شمار کیا ہے، جبکہ کچھ فقہائے کرام نے سبز رنگ کی رطوبت کو بھی حیض میں شمار نہیں کیا، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حائضہ خواتین کیلئے اسے حیض ہی شمار کیا جائے گا، اور جن خواتین کو عمرہ رسیدہ ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہو گیا ہے، ان خواتین کیلئے حیض شمار نہیں ہوگا" انتہی
"رد المحتار" (1/289)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حیض سے طہارت حاصل ہونے کے بعد خارج ہونے والی رطوبت وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، اور نہ انکی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ ایام طہارت میں مٹیالا اور پیلا پانی کچھ نہیں ہوتا، اور نہ ہی اسے حیض شمار کیا جاتا ہے، بلکہ یہ پیشاب کے حکم میں ہے، اگر کسی خاتون کو ایسا ہی معاملہ در پیش ہے تو استنجا کے بعد ہر نماز کیلئے وضو کرے، اور جب بھی نماز کا وقت داخل ہو تو ایسے پانی کو صاف کر لے۔
اور اگر یہ ایامِ حیض کے فوراً بعد آئے، یا حیض کی ابتدا میں ، یا پھر دوران حیض آئے تو اسے حیض ہی شمار کیا جائے گا، لہذا ایسی عورت کو چاہیے کہ پاک ہونے تک نماز، طواف وغیرہ سے رک جائے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (29/116)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ہی سوال کیا گیا کہ :
"ماہواری کے شروع ہونے سے پہلے کچھ دن مٹیالا اور خاکی رنگ کا سیال مادہ خارج ہوتا ہے، اور یہ پانچ دن تک جاری رہتا ہے، اس کے بعد پھر حیض کا طبعی خون جاری ہوتا ہے جو کہ آٹھ دن یعنی پانچ دن کے بعد آٹھ دن جاری رہتا ہے، متاثرہ لڑکی کا کہنا ہے کہ: میں ان پانچ ایام میں نماز پڑھتی ہوں، لیکن میرا سوال ہے کہ کیا ان دنوں میں نماز روزہ فرض ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی مجھے بتلائیں، اللہ تعالی آپکو اچھا بدلہ دے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر پہلے پانچ دنوں میں آنے والا مٹیالا پانی خون سے بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے ، تو یہ حیض نہیں ہے، اور آپ پر نماز روزے کی پابندی کرنا ضروری ہوگا، آپ ہر نماز کیلئے وضو کرینگی؛ کیونکہ اس کا حکم پیشاب والا ہے، حیض والا نہیں ہے، چنانچہ اس کی وجہ سے نماز روزہ رکھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن جب تک یہ ختم نہ ہو جائے اس وقت تک ہر نماز کیلئے وضو کرنا لازمی ہے، جیسے استحاضہ کیلئے وضو کیا جاتا ہے۔
اور اگر یہ مٹیالا پانی حیض کے ساتھ ہی آتا ہے، تو یہ بھی حیض میں شمار ہوگا، اور اسے ماہواری کے ایام میں شامل کیا جائے گا، چنانچہ آپ ان ایام میں نماز نہیں پڑھیں گی، اور نہ ہی روزے رکھیں گی۔
اسی طرح اگر مٹیالا یا پیلا پانی حیض سے فراغت کے بعد طہر میں آئے تو اسے حیض شمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسکا حکم استحاضہ والا ہوگا، چنانچہ آپ ہر نماز کیلئے استنجا کریں، اور وضو کر کے نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں، اسے آپ حیض شمار مت کریں، اس دوران آپ اپنے خاوند کیساتھ تعلقات بھی قائم کر سکتی ہیں؛ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "ہم طہر کے بعد مٹیالے اور پیلے سیال مادے کو کچھ بھی شمار نہیں کرتی تھیں" اسے بخاری نے روایت کیا ہے، اور یہ الفاظ ابو داود کے ہیں۔
ام عطیہ رضی اللہ عنہا ان جلیل القدر صحابیات میں سے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث روایت کرتی ہیں۔ اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز" (10/207-208)
خلاصہ یہ ہے کہ: حیض کے وقت آنے والے خون اور رطوبت کا حکم حیض والا ہی ہے، چاہے یہ حیض کے خون سے فوراً پہلے آئے، یا حیض سے پاک ہونے کی علامات واضح ہونے سے پہلے آخری ایام میں۔
اس سے آپکو علم ہو گیا کہ حیض کی پوری مدت میں نماز روزے سے رکنا آپ پر ضروری ہے، چاہے سات دن ہو یا دس دن، آپ جب تک پاک صاف نہیں ہو جاتیں ، اور طہارت کی علامات واضح نہیں ہوتی اس وقت تک آپ حیض کی حالت میں ہو؛ چنانچہ اگر آپ کا حیض 17 ویں تاریخ کو ختم ہوا تو آپ پر طہارت و غسل ، نماز روزہ پاک ہوتے ہی واجب ہو جائے گا، اسی طرح اگر آپ کا حیض 18 ویں دن ختم ہو تب بھی و ہی حکم ہے، آپ ہر ماہ اسی طرح کرینگی۔
سوم:
اگر طہارت حاصل کرنے کے بعد خون دو ہفتے کے بعد دوبارہ آ جائے، جیسے کہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے، اور خون کی ماہیت حیض کے خون والی نہیں تھی، تو یہ استحاضہ کا خون ہے، حیض کا خون نہیں ہے؛ کیونکہ اس خون میں حیض کی علامات نہیں پائی جاتیں، اور نہ ہی یہ خون آپکی عادت کے مطابق مقررہ وقت پر آیا ہے، اس لئے ایسے خون کے آنے کی وجہ سے آپ پر نماز روزے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ آپ اس خون سے پاک صاف رہنے کی کوشش کریں، اور ہر نماز کیلئے وضو کر کے نماز ادا کریں۔
آپ اسی طرح عمل جاری رکھیں گی، اور نماز ، روزے کی پابندی کرینگی، یہاں تک کہ حیض کا خون آ جائے، جسے آپ حیض کی علامات سے پہچان سکتی ہیں، یا گزشتہ تفصیل کی روشنی میں اپنی ماہواری کے وقت سے بھی پہچان سکتی ہیں۔
چہارم:
اگر آپکو اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے، اور آپکو حیض کے وقت ، مدت، امتیازی صفات کسی بھی چیز کا علم نہیں ہے، تو آپ سات دن حیض کے شمار کریں، کیونکہ یہ تعداد آپکی سابقہ ماہواری کے مدت کے قریب تر ہے، اور یہ سات دن انہیں دنوں میں آپ شمار کریں جن دنوں میں آپ کو ماہواری کا نظام خراب ہونے سے پہلے حیض آیا کرتا تھا، سات دن گزرنے کے بعد آپ غسل کریں، اور نماز پڑھیں، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو یہی حکم دیا تھا، انہیں بھی بہت زیادہ خون جاری رہتا تھا: آپ نے فرمایا :(یہ شیطان کے چوکے میں سے ایک چوکا ہے، اس لئے تم چھ یا سات دن حیض کے گزارو، اور پھر غسل کرو، اس کے بعد 23 یا 24 دن رات طہر کے گزارو، اور ان میں نماز روزے کی پابندی کرو، یہ تمہارے لئے کافی ہے، تم ہر ماہ ایسے ہی کرو، جیسے دیگر خواتین اپنے حیض اور طہر کے ایام میں کرتی ہیں)
احمد :(27474) ، ابو داود (287) وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے " مشكاة المصابیح "(561) میں حسن قرار دیا ہے۔.