الحمد للہ.
اول:
گناہگار اور بے روزگار شخص کو سب سے پہلے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے اور اپنے آپ کو ظلم و نافرمانی سے نکال کر عدل اور اطاعت پر گامزن کرے۔
دوم:
پہلے فتوی نمبر: (81134) اور (49006) میں گزر چکا ہے کہ تمام مساجد میں اعتکاف صحیح ہے، صرف تین مساجد میں اعتکاف منحصر نہیں ہے۔
سوم:
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ: اگر کوئی شخص ایسے امام کی بات مانتا ہے جو صرف تین مساجد میں ہی اعتکاف کو صحیح سمجھے تو اس پر مسجد میں آخری عشرے کی راتیں گزارنے میں کوئی حرج نہیں ، اس طرح سے اس کے نظریے کے مطابق اعتکاف تو نہیں ہو گا، لیکن مسجد میں نماز، ذکر، تلاوتِ قرآن، اور نمازوں کا انتظار کرنے کیلیے رکنا بذات خود ایک اچھا کام ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب نمازی [مسجد میں]نماز پڑھ لے تو فرشتے اس پر رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے، [فرشتے دعا میں کہتے ہیں] "یا اللہ! اس کے درجات بلند فرما ، یا اللہ! اس پر رحمت فرما" اور جب تک انسان نماز کی انتظار میں ہو تو وہ نماز میں ہوتا ہے) بخاری: (648) مسلم: (649)
اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب "شعب الایمان" (2943) میں عمرو بن میمون اودی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: "ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بتلایا: مسجدیں روئے زمین پر اللہ تعالی کے گھر ہیں، اور جو بھی اللہ سے ملاقات کیلیے اس کے گھر جائے تو اللہ تعالی پر حق ہے کہ وہ مہمانوں کی تکریم کرے"
اس حدیث کو البانی نے سلسلہ احادیث صحیحہ (1169)میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انسان کو یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر دنیاوی امور سے الگ تھلگ ہو کر اللہ تعالی کی عبادت کا موقع بھی ملتا ہے۔
واللہ اعلم .