اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایک عورت کے پاس رقم نہیں ہے تو کیا حج کرنے کیلیے اپنے والد سے رقم لے سکتی ہے؟ اور اگر خود حج کرنے کی استطاعت نہ رکھے تو کیا کسی کو حج کیلیے اپنا نمائندہ بنا سکتی ہے؟

223524

تاریخ اشاعت : 10-08-2016

مشاہدات : 7350

سوال

خواتین پر حج کب فرض ہوتا ہے؟ کیا اس کیلیے عمر کی تعیین ہے؟ اور کیا میں اپنے والد کے مال سے حج کر سکتی ہوں؟ یا مجھے اپنے خرچے پر حج کرنے کیلیے انتظار کرنا ہوگا؟ اور کیا میں کسی کو اپنی طرف سے حج بدل کروا سکتی ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بالغ انسان مرد ہو یا عورت حج کی استطاعت رکھنے کی صورت میں اس پر حج فرض ہو جاتا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إلَيْهِ سَبِيلا )
ترجمہ: بیت اللہ  جانے کی استطاعت رکھنے والوں پر اللہ تعالی کیلیے اس کا حج فرض ہے۔[آل عمران :97] اس آیت میں استطاعت رکھنے والے شخص پر حج کی فرضیت بیان کی گئی ہے اور مرد و خواتین کسی میں بھی فرق نہیں رکھا گیا۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر عورت کے پاس استطاعت ہو تو اس پر بھی حج واجب ہے" انتہی
" شرح مسلم " از نووی: (4/148)

اس بنا پر حج فرض ہونے کیلیے کوئی  معین عمر نہیں ہے، جیسے ہی انسان بالغ ہو اور مالی و جسمانی اعتبار سے حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس پر فوری حج کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (41702) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اور مزید  کیلیے آپ سوال نمبر: (20045) اور (41957) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

تاہم عورت کیلیے استطاعت کے ساتھ ایک شرط اور بھی ہے کہ  خاتون کے ساتھ محرم بھی ہو، لہذا اگر عورت کو  اپنے ساتھ حج کرنے کیلیے کوئی محرم نہ ملے تو ایسی صورت میں عورت پر حج کرنا فرض نہیں ہے چاہے مالی اور جسمانی طور پر حج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (83762) کی طرف رجوع کریں۔

دوم:

اولاد پر حج کیلیے اپنے والد سے رقم کا مطالبہ کرنا لازمی نہیں ہے، لیکن اگر والد حج کے اخراجات دے تو اولاد اسے قبول کر کے حج کر سکتی ہے، اسی طرح اگر والد بذاتِ خود اپنے خرچے پر کسی حج گروپ میں اولاد کیلیے بکنگ کروا  دے تو یہ بھی اچھا ہے، یہ بھی شرعی نفقہ میں شامل ہے، نیز اگر اولاد اسے قبول کر بھی لے تو یہ والد کا اپنی اولاد پر احسان بھی نہیں ہو گا ؛ خصوصاً اگر اولاد کی طرف سے مطالبے کے بغیر والد نے حج کا انتظام کیا ہو۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میں ابھی تک زیر تعلیم ہوں اور بالغ ہو چکا ہوں، میری ملکیت میں کچھ نہیں ہے، تو کیا ابھی حج کرنے کیلیے اپنے والد سے رقم کا مطالبہ کروں؟ یا پھر تعلیم سے فراغت کے بعد  جب ملازمت ملے تو پھر اپنے ذاتی مال سے حج کروں؟ اگر ایسا ہی ہے تو اس میں بہت دیر لگے گی"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جب تک انسان کے پاس حج کرنے کیلیے مال ہی نہ ہو اس پر حج واجب ہی نہیں ہوتا، چاہے اس کا والد مالدار ہی کیوں نہ ہو اسی طرح اولاد پر حج کیلیے والد سے رقم کا مطالبہ کرنا بھی لازمی نہیں ہے، بلکہ علمائے کرام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر آپ کا والد آپ کو حج کرنے کیلیے رقم دے تو آپ پر وہ قبول کرنا ضروری نہیں ہے، لہذا آپ لینے سے انکار کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ: میں حج نہیں کرنا چاہتا کیونکہ حج مجھ پر واجب نہیں ہے۔

لیکن کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ اگر آپ کو باپ یا بھائی کی جانب سے حج کرنے کیلیے رقم دی جائے تو آپ  کیلیے رقم وصول کر کے حج کرنا ضروری ہے۔
لیکن اگر کوئی اور شخص آپ کو حج کرنے کیلیے رقم دے  اور آپ کو مستقبل میں  اس کی جانب سے احسان جتلانے کا خدشہ ہو تو  ایسی صورت میں آپ پر رقم لے کر حج کرنا ضروری نہیں ہے، یہی موقف صحیح ہے۔" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (21/94)

اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (3463)

سوم:

حج میں کسی کو اپنا نمائندہ اسی وقت  بنایا جا سکتا ہے جب کوئی  بدنی طور پر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے خود حج نہ کر سکے، چنانچہ ایسے شخص  کے پاس اگر رقم ہے تو وہ اپنی طرف سے کسی کو حج بدل کیلیے متعین کر سکتا ہے۔

لیکن جو شخص بدنی طور پر استطاعت تو رکھتا ہو لیکن اس کے پاس مال نہ ہو، یا کوئی خاتون مالی اور جسمانی ہر دو اعتبار سے حج کی استطاعت رکھے لیکن محرم نہ ہو تو ایسی صورت میں  کسی کو حج بدل کروانا صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ ان پر سرے سے حج فرض ہی نہیں ہوا، نیز ایسا ممکن ہے کہ آئندہ عورت کو  اس کے ساتھ حج کرنے کیلیے کوئی مل جائے۔

چنانچہ " مجموع فتاوى ابن باز " (16/122) میں ہے کہ:
"جسمانی طور پر صحیح سلامت شخص کی جانب سے حج بدل کرنا جائز نہیں ہے، چاہے وہ غریب ہی کیوں نہ ہو، اور اسی طرح فرض یا نفل حج کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، البتہ جو شخص بڑھاپے اور لا علاج بیماری کی وجہ سے حج کی استطاعت نہ رکھے لیکن مالی طور پر استطاعت ہو تو اس  پر اپنی طرف سے حج اور عمرہ بدل کروانا لازمی امر ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی عام ہے کہ:
( وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إلَيْهِ سَبِيلا )
ترجمہ: بیت اللہ  جانے کی استطاعت رکھنے والوں پر اللہ تعالی کیلیے اس کا حج فرض ہے۔[آل عمران :97] "

حج بدل  کے احکامات اور اس بارے میں اصول و ضوابط جاننے کیلیے  سوال نمبر: (111794) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب