اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مسلمان کا کسی غیر مسلم ملک میں رہائش کے لیے منتقل ہو جانے کا حکم

224475

تاریخ اشاعت : 02-09-2024

مشاہدات : 595

سوال

میرا تعلق پاکستان سے ہے اور میں نیوزی لینڈ میں اقامت پذیر ہونا چاہتا ہوں، اس کا بنیادی سبب اپنی زندگی کو تحفظ دینا ہے؛ کیونکہ اس وقت پاکستان میں زندگی گزارنا بہت ہی مشکل ہو چکا ہے؛ کیونکہ ہر جگہ بم دھماکے، قتل عمد، چوریاں، ڈاکے، رہزنی، سیاسی اور مذہبی ٹارگٹ کلنگ سمیت بہت کچھ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کسی بھی مسلمان کے لیے غیر اسلامی ممالک میں رہائش پذیر ہونے کی اجازت نہیں ہے؛ خصوصاً دین دار لوگوں کے لیے جو کتاب و سنت پر عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں، تو آپ سے گزارش ہے کہ میری صورتحال میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

غیر مسلم ممالک میں رہائش پذیر ہونے کے بارے میں اہل علم نے فتوی جاری کیا ہے کہ بنیادی طور پر یہ عمل جائز نہیں ہے؛ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

  • مسلمان کو غیر مسلم ممالک میں رہنے سے ممانعت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث مبارکہ موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر مسلموں سے دور رہنے کا حکم صادر فرمایا ہے، جیسے کہ درج ذیل احادیث میں موجود ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے جھرمٹ میں رہتا ہے۔) اس حدیث ابو داود: ( 2645 ) اور ترمذی : ( 1604 ) نے روایت کیا ہے ، نیز البانی ؒ نے اسے ” إرواء الغليل ” ( 5 / 29 – 30 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ابو نخیلہ بَجَلی کہتے ہیں کہ جریر رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ وہ جس وقت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیعت کرنے کے لیے تشریف لائے تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اپنا ہاتھ بڑھائیے تا کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر سکوں، اور بیعت کی شرائط بھی آپ ہی ذکر کر دیں؛ کیونکہ آپ زیادہ علم رکھتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، نمازیں قائم کرو گے، زکاۃ ادا کرو گے، مسلمانوں کی خیر خواہی چاہو گے، اور مشرکوں سے دور رہائش اختیار کرو گے۔) اس حدیث کو امام نسائی ؒ ( 4177 )نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ احادیث صحیحہ : (2 / 227) میں صحیح قرار دیا ہے۔

  • غیر مسلم ممالک میں آج کل بے حیائی اور فحش کاری بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، بلکہ ان کے لیے نت نئے طور طریقے بھی ایجاد کیے جا چکے ہیں اور فحش کاری ان کی عمومی عادات اور عرف بن چکی ہیں اب انہیں کوئی بھی ان غلط کاریوں سے متنبہ کرے تو منع کرنے والے کو ہی طعن و تشنیع کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں، تو ایسے ممالک میں اگر مسلمان رہائش پذیر ہونے کے لیے سفر کرتا ہے تو یہ اپنے آپ کو فتنوں اور فحاشی کے کاموں کے درپے کرنے کے مترادف ہے۔

دوم:

غیر مسلم ممالک میں جانے اور وہاں پر اقامت پذیر ہونے سے اس لیے روکا گیا ہے کہ یہ خرابی کا ذریعہ ہے، جیسے کہ پہلے اس کی وضاحت ہو چکی ہے، یہ خرابیاں شہوانی اور فحاشی کی بھی ہو سکتی ہیں، اور مجموعی طور پر دینی بھی کہ انسان اپنا دین چھوڑ کر کسی اور دین کو اپنا لے۔ [اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ مترجم]

جبکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ جو کام کسی غلط چیز کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے حرام ہو وہ ضرورت یا حاجت کے وقت جائز ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو کام بھی سد ذرائع کے طور پر ممنوع ہو ، اس لیے نہیں کہ وہ کام بذات خود برائی ہے تو جب واضح مصلحت پائی جائے تو وہ کام کرنا جائز ہوتا ہے۔” ختم شد
مجموع الفتاوى ( 23 / 214 )

اور ہمارے زیر بحث مسئلے میں واضح مصلحت تبھی ہو سکتی ہے جب غیر مسلم ممالک میں جانے والے یا وہاں پر اقامت پذیر ہونے والے شخص میں دو اہم شرطیں پائی جاتی ہوں:

پہلی شرط: انسان اس علاقے میں جا کر اپنے دین کا اظہار کر سکے، دینی شعائر پر آزادی سے عمل کر سکے، نیز انسان کو غالب گمان ہو کہ ان علاقوں میں سر عام پائی جانے والی بے حیائی ، برائی اور شبہات سے محفوظ رہے گا۔

دوسری شرط: غیر مسلم ممالک جانے اور وہاں پر رہائش پذیر ہونے کی واضح مصلحت ہو کہ جسے مسلم ممالک میں رہتے ہوئے حاصل کرنا ممکن نہ ہو، مثلاً: کسی ایسے اہم علم کی جستجو جو ابھی مسلم ممالک میں نہیں ہے، یا دینِ اسلام کی دعوت وغیرہ کے لیے جانا مقصود ہو۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“غیر مسلم ممالک کی جانب سفر تین شرائط کے ہوتے ہوئے جائز ہے:
پہلی شرط: انسان کے پاس اتنا علم ہو کہ جس سے شبہات کا رد کر سکے۔

دوسری شرط: انسان اتنا دین دار ہو کہ اسے فحاشی اور بے حیائی سے روک سکے۔

تیسری شرط: انسان کو ان ممالک کا سفر کرنے کی ضرورت ہو۔

اگر یہ تینوں شرائط نہیں پائی جاتیں تو پھر غیر مسلم ممالک کا سفر کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں فتنہ ہے یا فتنے کا خدشہ ہے ۔۔۔” ختم شد
” مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین ” ( 6 / 131 – 132 )

ہمیں یہ لگتا ہے کہ -واللہ اعلم- آپ کے حالات ابھی ایسے نہیں ہے کہ جس میں ملک سے باہر جانے کی بڑی ہی شدید ضرورت ہو؛ کیونکہ جو کچھ آپ نے ذکر کیا ہے اس میں کسی طور پر بھی یہ ظاہر نہیں ہو رہا کہ آپ کو کسی غیر مسلم ملک میں رہائش پذیر ہونے کی شدید ضرورت ہے؛ کیونکہ آپ نے جو کچھ حالات ذکر کیے ہیں اگرچہ سنگین نوعیت کے ہیں، لیکن پھر بھی ہماری معلومات کے مطابق پورے پاکستان کے حالات ایسے نہیں ہوئے کہ ملکی سطح پر داخلی بغاوت شروع ہو چکی ہو، کیونکہ پاکستان میں ابھی بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جو پر امن ہیں، اس لیے آپ ایک شہر چھوڑ کر دوسرے پر امن شہر میں منتقل ہو سکتے ہیں۔

لیکن اگر کسی شخص کی صورت حال واقعی ایسی ہو کہ اسے ہر وقت اپنی جان کا خطرہ ہو، یا اس کے دینی تشخص کو اپنے ہی ملک میں خطرہ لاحق ہو ، اور کسی بھی مسلمان ملک میں اس کے زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ انسان کسی ایسی جگہ منتقل ہو جائے جہاں اسے اپنے دین، جان، اور اہل خانہ کے بارے میں اطمینان ہو چاہے وہ کافروں کا ہی ملک کیوں نہ ہو۔ جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (13363) میں ذکر کر آئے ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب