اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

فقہی مذاہب کی جانب نسبت بذات خود کوئی افتراق نہیں ہے۔

226254

تاریخ اشاعت : 20-02-2018

مشاہدات : 7230

سوال

ایک بار میری کسی مشہور اہل علم سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا : مسلمانوں کے ساتھ ماضی میں کیا ہوا؟ انہوں نے اپنے آپ کو مختلف جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کر لیا: یہ حنبلی ہے تو وہ شافعی ہے اور یہ مالکی ہے تو وہ حنفی ہے اور یہ سلفی۔۔۔ الخ، اگر اپنے آپ کو کسی نہ کسی کی جانب نسبت دینی اتنی ہی ضروری تھی تو اپنے آپ کو محمدی کیوں نہیں کہہ دیتے؛ کیونکہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرتے ہیں اور آپ ہمارے پیغمبر ہیں، آپ کی جانب نسبت سب سے اعلی اور سب سے زیادہ حق رکھتی ہے؛ ہم اپنا وہی نام کیوں نہیں رکھتے جو اللہ تعالی نے ہمارا رکھا ہے: (هو سماكم المسلمين)[اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے] ، تو آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کوئی شخص امت کے گروہ در گروہ تقسیم ہونے کی بات کرتے ہوئے اس کی مثال فقہی مذاہب سے دے تو ہم اس کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اس کے کئی اسباب ہیں:

اول:

نسبت چاہے کوئی بھی ہو اختلاف اور گروہ بندی کا باعث بھی بن سکتی اور اسی طرح نسبت گروہ بندی کے بغیر محض ایک تعارفی علامت  بھی رہ سکتی ہے ۔

بلکہ کتاب و سنت میں موجود شرعی نسبتیں بھی بسا اوقات ممکن ہے کہ دعوی جاہلیت بن جائیں؛ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب شرعی نسبت کے ساتھ گروہ بندی اور اختلاف کو جوڑ دیا جائے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک بار ہوا، ہوا یوں کہ : (مہاجرین میں سے کسی شخص نے انصاریوں میں سے کسی شخص کے کولہے پر مارا، اس پر انصاری نے   " يا للأنصار" کہہ کر انصاریوں کو پکارا اور اس کے جواب میں مہاجر نے " يا للمهاجرين" کہہ کر مہاجروں کو پکارا، تو یہ آوازیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( یہ جاہلیت والی آوازیں کیوں لگا رہے ہو؟۔۔۔ چھوڑ دو انہیں یہ بد بو دار صدائیں ہیں) بخاری: (4905) مسلم: (2584)

تو اس حدیث میں انصاری اور مہاجر جیسے شرعی اوصاف کو بد بو دار اس لیے کہا گیاہے کہ یہ فتنے کا باعث تھا، ان میں ذاتیات پائی جاتی تھیں، اپنے قبیلے اور لوگوں کی حق ہو یا باطل ہر حالت میں معاونت کی صدا تھی، ان لفظوں میں تعصب پایا جاتا تھا، حق بات اور عدل  کو ایک طرف رکھ دینے کا معاملہ تھا۔

دوم:

مذکورہ بالا وضاحت کے بعد یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ فقہی مذاہب کی جانب محض نسبت رکھنے سے کوئی گروہ بندی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس غلط فہمی کی وجہ سے ہوئی جو ان فقہی مذاہب کے پیروکاروں کو لگی کہ اپنے امام سے تعصب کی حد تک لگاؤ، مسجدیں جدا جدا کرنا، دیگر مذاہب پر کیچڑ اچھالنا، اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنا اور دوسروں کو کمتر سمجھنا، اس نسبت کی بنا پر زبان درازی کرنا وغیرہ تو اس وقت فقہی مذاہب کی جانب نسبت مذموم عمل بن جاتا ہے، اگرچہ تاریخ کے اوراق بتلاتے ہیں کہ فقہی مذاہب کے کچھ نہ کچھ لوگ اس مذموم نسبت میں مبتلا رہے ہیں لیکن اکثریت اور زیادہ تر لوگ باہمی اتحاد و اتفاق ، دلوں کو جوڑنے اور تمام فقہائے کرام سے استفادہ کرنے پر قائم رہے ہیں۔

سوم:

فقہی مذاہب کی جانب نسبت رکھنے میں سلامتی اس لیے ہے کہ : یہ چاروں فقہی مذاہب عقدی مذاہب نہیں ہیں کہ یہ امت سے کسی خاص عقیدے کے معاملے کی وجہ سے الگ تھلگ ہوئے، یا ان کا ایمان کے بارے میں کوئی الگ اور شاذ موقف تھا، بلکہ ان فقہی مذاہب کی حقیقت یہ ہے کہ یہ شرعی نصوص کو سمجھنے کا ایک طریقہ کار ہیں، نصوص کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ان کا باہمی ربط واضح کرنے کا نام ہیں اور علم فقہ میں شرعی مصادر پر غور و فکر  کا نام ہیں۔ ان میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوتی جو اجتہاد کے دائرے سے باہر ہو اور یہی اجتہاد امت کے لیے رحمت اور شرعی احکام میں اضافے کا باعث ہے، اس اجتہاد کی پہلی اینٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے رکھی گئی تھی کہ جب صحابہ کرام نے نصوص کے سمجھنے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں اختلاف کیا ، جیسے کہ صحابہ کرام سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کا یہ فرمان سمجھنے میں اختلاف ہوا: (تم میں سے ہر ایک عصر کی نماز بنی قریظہ میں ہی  پڑھے) بخاری: (946) مسلم: (1770)

اسی طرح صحابہ کرام سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان سمجھنے میں بھی اختلاف ہوا: (میرے پاس کتاب لے کر آؤ میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھوا دوں کہ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو گے) بخاری: (114) مسلم: (1637)

یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے الگ الگ فہم اور مطلب رکھنے والے دونوں گروہوں میں سے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی کہ تم نے اس کا یہ مطلب نکالا تو تم صحیح ہو اور دوسرا غلط ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ اجتہاد شرعی عمل ہے، لیکن اس کے لیے اجتہاد اور استدلال کا منہج ٹھیک ہونا ضروری ہے۔

حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ناموں کی نسبت در اصل تعارف اور کسی بھی فقیہ کے فقہ اخذ کرنے کے مصادر  اور طریق استنباط کو بیان کرنے کے لیے وجود میں آئی، چنانچہ یہ نسبتیں لمبے چوڑے تعارف اور اصولوں کو مختصر کرنے لیے معرض وجود میں آئیں جن کی بنیاد پر فقیہ اپنے موقف کی بنیاد رکھتا ہے، ان نسبتوں کی وجہ سے ایک لفظ سے ہی فقیہ کا طرز استدلال واضح ہو جاتا ہے اور اسی کو فقہی مدرسہ کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں پروان چڑھتے ہوئے اجتہاد مطلق کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔

نیز یہ فقہی مذاہب در حقیقت بنیادی طور پر صحابہ کرام کے تعلیمی اداروں سے جا ملتے ہیں  جو کہ پہلی صدی ہجری میں مشہور ہو گئے تھے، جیسے کہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب اعلام الموقعین (1/17) میں لکھتے ہیں:
"تو اہل مدینہ کا علم زید بن ثابت  اور عبداللہ بن عمر کے شاگردوں  سے حاصل شدہ ہے، جبکہ اہل مکہ کا علم عبد اللہ بن عباس کے شاگردوں سے لیا ہوا ہے، جبکہ اہل عراق کا علم عبد اللہ بن مسعود کے شاگردوں -رضی اللہ عنہم جمیعا -سے حاصل شدہ ہے"

اسی طرح شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اجمالی طور پر صحابہ کرام کے موقف الگ الگ ہوئے تو ان سے تابعین نے علم لیا اور ہر ایک نے اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث یاد کیں، صحابہ کرام کے موقف یاد رکھے اور انہیں سمجھا، پھر متنوع قسم کے علوم و معارف جمع کئے، اور صحابہ کرام کے موقف میں موازنہ کر کے ان میں ترجیح بھی دی، تو اس وقت تابعین میں سے ہر ایک  کا مکتب فکر بن گیا، اور ہر علاقے میں کسی نہ کسی تابعی کا نام بطور امام سامنے آیا، جیسے کہ سعید بن مسیب اور سالم بن عبد اللہ مدینہ میں تھے، ان کے بعد زہری اور قاضی یحیی بن سعید اور ربیعہ بن عبدالرحمن مدینہ میں آئے۔

عطا بن ابی رباح مکہ میں

ابراہیم نخعی اور شعبی کوفہ میں

حسن بصری بصرہ میں

طاؤس بن کیسان یمن میں اور

مکحول شام  میں بطور امام سامنے آئے۔

اللہ تعالی نے ان کے علوم و معارف کے ذریعے بہت سے لوگوں کی تشنگی دور فرمائی، ان کے شاگردوں نے ان کا علم پسند کیا ، ان سے علم حدیث ، صحابہ کرام کے فتاوی اور ان کے اقوال لیے، نیز ان تابعی علمائے کرام  کے اپنے موقف اور ان کی ذاتی تحقیقات بھی لیں، لوگوں نے ان سے مزید نئے فتاوی بھی پوچھے، ان کے مابین بات چیت اور بحث و تمحیص بھی جاری رہی، ان کے سامنے فیصلہ کروانے کے لیے اختلافات اور جھگڑے بھی رکھے گئے۔

چنانچہ سعید بن مسیب  اور ابراہیم نخعی جیسے اہل علم نے تمام فقہی مسائل جمع کئے، ہر مسئلے میں ان کے پاس دلائل تھے جو انہوں نے اپنے اساتذہ سے لیے تھے۔

اسی لیے سعید بن مسیب اور ان کے شاگرد اس بات کے قائل تھے کہ اہل حرمین فقہ میں تمام لوگوں سے برتر اور معتبر ہیں، ان کے موقف کی بنیاد عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے فتاوی اور ان کے فیصلے ہوتے تھے، ان کے ساتھ ساتھ عبد اللہ بن عمر، عائشہ، ابن عباس رضی اللہ عنہم کے فتاوی بنیاد تھے ، اسی طرح مدینہ کے قاضیوں کے فیصلے ان کے موقف کی بنیاد بنے، تو اس طرح انہوں نے اللہ کی توفیق سے کافی علم جمع کیا؛ پھر انہوں نے ان کے موقف سامنے رکھ کر انہیں پرکھا بھی اور دلائل کے مطابق ان کی جانچ پڑتال کی۔

ابراہیم نخعی اور ان کے شاگرد عبداللہ بن مسعود اور ان کے ساتھیوں کو فقہی معاملات میں معتبر اور معتمد سمجھتے تھے۔

چنانچہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فتاوی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کے فتاوی  اور قاضی شریح سمیت کوفے کے دیگر قاضیوں کے فیصلے اصل بنیاد ہیں، تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حسب توفیق علم جمع کیا پھر ان کے اقوال کے متعلق بھی وہی موقف اختیار کیا جو اہل مدینہ نے اہل مدینہ کے آثار سے متعلق کیا تھا، انہوں نے بھی اسی طرح فرعی مسائل کو اصولوں پر پرکھا جیسے اہل مدینہ نے کیا تھا، تو اس طرح سے ہر باب سے متعلقہ فقہی مسائل  الگ الگ جمع ہو گئے۔" ختم شد
"الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف " (ص: 30-33)

یہ اقتباسات ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان فقہی مذاہب کی اصل ماہیت سامنے آئے کہ یہ در حقیقت صحابہ کرام اور تابعین کے فکری مدارس کا تسلسل ہے، یہ کوئی اسلام میں انوکھی چیز نہیں  اور اگر انہیں ان کی حدود کے اندر رہتے ہوئے سمجھا جائے تو یہ امت کے لیے تفرقے کا باعث بھی نہیں ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ ان فقہی مذاہب کو علم سیکھنے، سمجھنے اور عبادت کا طریقہ سمجھنے کا ایک ذریعہ سمجھا جائے یہاں تک کہ انسان درجۂ اجتہاد تک پہنچ جائے۔

لیکن اگر ان فقہی مذاہب کے ساتھ نسبت بڑھتے ہوئے فرقہ اور گروہ بن جائے اور ہر ایک گروہ اور فرقہ اسی پر خوش ہو جو اس کے پاس ہے ، اسی نسبت کی بنا پر لوگوں سے دوستی اور دشمنی رکھی جائے، امت سے الگ تھلگ ہوا جائے، اپنی اس معمولی سی نسبت کے مقابلے میں امت کے مجموعی فضائل کو بھی معمولی سمجھ لیا جائے تو پھر یہ نسبت بھی حرام قرار پائے گی، اس کے ہر فرد اور پوری امت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ اسی کے بارے میں کہتے ہیں:
"دینی و فروعی مسائل میں کسی امام کی طرف نسبت اختیار کرنا جیسے کہ چاروں فقہی مذاہب ہیں تو یہ کوئی مذموم عمل نہیں ہے؛ کیونکہ فروعی مسائل میں اختلاف رحمت ہے، ان فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے اپنے اختلاف کی وجہ سے قابل ستائش ہیں؛ انہیں اجتہاد کی وجہ سے ثواب ملے گا، ان کا اختلاف کرنا رحمت اور وسعت کی نشاندہی ہے اور جہاں وہ سب متفق ہو جائیں تو وہ قطعی حجت ہے" ختم شد
" لمعة الاعتقاد " (ص/42)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسی جماعتیں جو اتحاد کو سبوتاژ کریں، دلوں میں نفرتیں پیدا کریں تو یہ باطل جماعتیں ہیں۔ لیکن ایسی جماعتیں جو ایسی منفی حرکتیں نہیں کرتیں، جیسے کہ مسلمانوں کا فقہی مذاہب میں اختلاف ہے کہ یہ حنبلی ہے اور وہ شافعی ہے، یہ مالکی تو وہ حنفی تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے، بشرطیکہ دل ایک ہوں تو یہ کوئی بری چیز نہیں "ختم شد
" لقاء الباب المفتوح " (87/ 19)مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق

اسی طرح شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل سنت کے چاروں فقہی مذاہب جو ابھی تک باقی ہیں اور ان کی کتب اور مصادر مسلمانوں میں موجود ہیں تو ان میں سے کسی ایک فقہی مذہب کو اپنانا  اور اس کی طرف نسبت کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلاں شافعی ہے، فلاں حنبلی ہے اور فلاں حنفی ہے اور فلاں مالکی ہے۔

یہ القاب قدیم زمانے سے بڑے بڑے علمائے کرام کے ساتھ بطور لقب چلتے آ رہے ہیں کہ فلاں حنبلی ہے، جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ ابن تیمیہ حنبلی، ابن قیم حنبلی وغیرہ وغیرہ، تو ایسے القاب میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے، لہذا صرف نسبت رکھنے میں کوئی حرج نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اس مذہب کا اپنے آپ کو پابند مت بنائے کہ صحیح یا غلط سب کچھ ہی اسی سے لینا ہے ایسا مت کرے" ختم شد
" مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان " (2/ 701)

ہماری ویب سائٹ پر اس سے پہلے کافی اہم فتاوی گزر چکے ہیں کہ جس میں ہم نے "سلفیت" کا معنی اور مفہوم واضح کیا ہے جو کہ اوپر بیان شدہ تفصیل کے عین مطابق ہے، مزید یہ کہ اگر یہ لقب بھی مسلمانوں کے درمیان افتراق اور جھگڑے کا باعث بنے ، امت سے الگ تھلگ اور عقیدے سے دور ہونے کا اشارہ دے تو پھر ایسی صورت میں صرف "اسلام" پر ہی اکتفا کرنا چاہیے کہ ہمارا نام اللہ تعالی نے مسلمان رکھا ہے۔

مزید تفصیلات کے لیے سوال نمبر: (191402) ، (125476)  اور (101366) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب