الحمد للہ.
میں نے یہ سوال اپنے شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ کے سامنے رکھا تو انہوں نے بتلایا کہ اگر اس میں مصلحت ہے اور ایک جماعت سے دوسری جماعتوں کو کوئی تنگی بھی نہیں ہے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں۔
کیونکہ ابتدا میں صحابہ کرام نماز تراویح متعدد جماعتوں کی صورت میں ادا کرتے تھے، یہاں تک کہ انہیں سیدنا عمر نے ایک ہی جماعت میں اکٹھا کر دیا۔
چنانچہ صحیح بخاری : (2010) میں عبد الرحمن بن عبد القاری سے مروی ہے کہ : "وہ ایک رات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان میں مسجد تک گئے تو لوگ الگ الگ ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو کسی نماز پڑھنے والے کے پیچھے دس سے کم لوگ کھڑے تھے ۔ تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "میرے رائے یہ ہے کہ ان سب کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دوں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا" پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ابی بن کعب کی امامت میں جمع کر دیا۔ "
واللہ اعلم