ہفتہ 2 ربیع الثانی 1446 - 5 اکتوبر 2024
اردو

بیت اللہ کے طواف کی فضیلت

سوال

نفل طواف کرنے کی فضیلت میں کون کون سی احادیث ملتی ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بیت اللہ کا طواف عظیم عبادات میں شامل ہے، یہ اسلام کے شعائر کا حصہ ہے، بیت اللہ کا طواف اسی وقت سے جاری و ساری ہے جب سے بیت اللہ کی تعمیر ہوئی، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)
ترجمہ: ہم نے ابراہیم اور اسماعیل  کو  تاکیدی حکم دیا کہ تم دونوں میرے گھر کو  طواف کرنے والوں ، اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلیے پاک صاف رکھو۔[البقرة:125 ]

ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)
ترجمہ: جب ہم نے ابراہیم کے لئے بیت الحرام کی جگہ تجویز  کی تھی [اور انہیں کہا کہ]میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنانا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا  رکھنا۔  [الحج:26]

نیز بیت اللہ کے طواف کے بارے میں فضیلت سے متعلق احادیث اور آثار ملتے ہیں، جن میں سے ہم ذکر کریں گے:

مسند احمد (4462) -ذیل میں ترجمہ مسند احمد کے الفاظ کا ہے-، ترمذی: (959)  اور نسائی: (866) نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے طواف کے دوران حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام [یعنی چھونے]کرنے کے بارے میں فرمایا:  کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: (ان دونوں کو چھونا  گناہوں کو مٹاتا ہے)

ابن عمر رضی اللہ عنہما مزید کہتے ہیں:  میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ: (جو شخص طواف کے سات چکر دھیان سے مکمل  کرے اور دو رکعت ادا کرے تو یہ اس کیلیے ایک گردن آزاد کرنے کے برابر ہو گا)
مزید ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ بھی کہتے ہیں:  میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ: (کوئی بھی شخص طواف کرتے ہوئے ایک قدم اٹھائے  اور پھر اسے نیچے رکھے تو اس کیلیے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، دس گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کر دئیے جاتے ہیں) اسے شیخ احمد شاکر اور شیخ ارناؤوط نے مسند احمد کی تحقیق میں حسن قرار دیا ہے۔

ترمذی کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (ایک قدم رکھے  اور دوسرا قدم اٹھائے تو اللہ تعالی اس کا گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس  کے بدلے میں نیکی لکھ دیتا ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں سندھی رحمہ  اللہ کہتے ہیں:
"لہذا طواف کا ثواب غلام آزاد کرنے کے برابر  ہے"

اسی طرح ابو داود (1888) اور ترمذی: (902)میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیت اللہ کا طواف ، صفا مروہ کے درمیان سعی  اور جمرات کو کنکریاں مارنا ذکر الہی کیلیے  مقرر کیا گیا ہے) اس حدیث کو ترمذی نے صحیح کہا ہے نیز ابن قدامہ  نے  "الکافی" (1/516)  میں صحیح کہا ہے، جبکہ ابن باز رحمہ اللہ نے اپنا فتاوی (16/186) میں اسے ثابت کہا ہے، تاہم البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف ابو داود میں ضعیف قرار دیا ہے۔

اسی طرح سنن نسائی : (2922) اور مسند احمد : (15423) میں طاؤس رحمہ اللہ  ایک ایسے شخص سے بیان کرتے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (طواف نماز کے برابر ہے، لہذا جب تم طواف کرو تو باتیں کم سے کم کرو)

ایسے ہی سنن ترمذی : (960) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیت اللہ کا طواف نماز کی مانند ہے، فرق یہ ہے کہ تم اس میں باتیں کر سکتے ہو، لہذا جو بھی دوران طواف بات کرے تو صرف بھلی بات کرے) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (34659) کا جواب ملاحظہ فرمائیں

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب