جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

ایک خاتون حرم مکی کے اندر مردوں کی موجودگی میں دوبارہ وضو کرنے کے بارے میں پوچھتی ہے

سوال

اگر کوئی عورت حرم مکی میں مخصوص جگہوں پر وضو دوبارہ کرنا چاہے ؛ کیونکہ بیت الخلاء بہت دور ہیں اور حج و رمضان کے موقع پر وہاں جانے میں بھی تنگی ہوتی ہے تو عورت کو کیا کرنا چاہیے؟ عورت اگرچہ خواتین کے حصے میں ہوتی ہے لیکن پھر بھی مرد حضرات وہاں سامنے سے گزر رہے ہوتے ہیں ، تو کیا آستینوں کے اندر ہاتھ ڈال کر بازو پر مسح کر لے؟ کیا سر کے مسح کیلیے یہ جائز ہے کہ صرف سر کے اگلے حصے کا مسح کر لے اور پھر اپنے ہاتھ دوپٹے کے اوپر سے پھیر لے؟ مجھے اچھی طرح وضاحت کے ساتھ بتلائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر عورت کو ایسی جگہ وضو کرنے کی ضرورت پڑ جائے جہاں سے مرد گزرتے ہیں تو وہ کسی دوسری عورت کے ذریعے اپنے پردے کا اہتمام کر سکتی ہے تا کہ چلتے پھرتے لوگوں کی نظریں اس پر نہ پڑیں، یا اس پر کپڑے کے ذریعے پردہ کر دے یا پھر گزرنے والی خواتین کی طرف پشت کر لے، تا کہ وضو کرتے ہوئے جو حصہ جسم کا ننگا ہو رہا ہے اس پر لوگوں کی نظریں نہ پڑیں۔

لیکن آستین میں ہاتھ داخل کر کے مسح کرنے سے ہاتھ نہیں دھلے گا؛ کیونکہ وضو میں شرط یہ ہے کہ مطلوبہ عضو پر پانی بہایا جائے اور پورا عضو دھویا جائے لیکن آستین میں ہاتھ ڈال کر  ہاتھ پھیرنے سے ایسا ممکن نہیں ہو گا۔

البتہ سر کے مسح میں ایسے کرے کہ اپنے سر کے آگے والے حصے پر مسح کر لے اور پھر دوپٹے کے اوپر سے مسح کر لےتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ متعدد علمائے کرام  اس کی اجازت دیتے ہیں ، اور ضرورت کے وقت اس کی خصوصی طور پر اجازت ہے، جیسے کہ پہلے فتوی نمبر: (139719) میں گزر چکا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو عورت ایسا نقاب پہنتی ہے جو کہ مکمل سر اور نیچے ٹھوڑی تک  آتا ہے اس پر مسح کرنے کے بارے میں دو موقف منقول ہیں:

1-اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ جن نصوص میں رخصت دی گئی ہے ان میں مرد تو یقینی طور پر شامل ہیں جبکہ خواتین کے شامل ہونے کے متعلق یقین نہیں ہے؛ اور ویسے بھی عورت نے یہ [نقاب] اوڑھا ہوا ہوتا ہے [پگڑی کی طرح باندھا نہیں ہوتا]

2- دوسرا موقف یہ ہے کہ: جائز ہے، یہ زیادہ بہتر موقف ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اپنے موزوں اور چادروں پر مسح کرو)  کے مطابق [چادروں پر مسح کرنے کے حکم میں]خواتین مردوں کے ضمن میں شامل ہیں، جیسے کہ خواتین موزوں پر مسح کرنے کے حکم میں شامل ہیں۔

نیز امام احمد  اور ابن منذر رحمہما اللہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ہے کہ: “وہ اپنی چادر پر مسح کیا کرتی تھیں” اگر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات صراحتاً یا استنباطاً نہ سیکھی ہوتی تو آپ کبھی بھی اس پر عمل نہ کرتیں؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھنے والوں میں آپ کا مقام سب سے آگے ہے۔

اسی طرح اگر مرد اپنے سر کے لباس پر مسح کر سکتا ہے تو عورت کیلیے بھی سر کے لباس پر مسح مرد کی طرح جائز ہوگا۔

اور ویسے بھی یہ سر پر لیا جانے والا جائز لباس ہے اور عام طور پر اسے اتارنا قدرے مشکل ہوتا ہے تو اس کی حیثیت مرد کے عمامے جیسے ہو گی ۔

بلکہ عورت کا یہ لباس پگڑی سے زیادہ مسح کا حق رکھتا ہے؛ کیونکہ عورت کا یہ مخصوص لباس مرد کی  پگڑی سے زیادہ جسم ڈھانپتا ہے اور اسے اتارنے میں پگڑی سے زیادہ دقت ہے، نیز موزوں سے زیادہ عورت کیلیے یہ لباس اہمیت رکھتا ہے” انتہی
“شرح العمدة” (كتاب الطهارة ص: 265)

مزید کیلیے سوال نمبر: (148129) کا جواب دیکھیں، اور اسی طرح مزید فائدے کیلیے آپ سوال نمبر: (72391) کا مطالعہ بھی کریں۔

عام معمول کے حالات میں عورت کیلیے وضو میں مسح کرنے کی کیفیت کا بیان پہلے گزر چکا ہے، وہ آپ سوال نمبر: (112171) کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب