الحمد للہ.
یہ بات جو سوال میں مذکور ہے کہ: (جو شخص حجر اسود کو بوسہ دے تو وہ بغیر حساب کے جنت میں جائے گا) ہمیں کتب احادیث میں نہیں ملی، اس کی صحیح یا ضعیف کوئی بھی سند نہیں ہے، بلکہ ہمیں اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرنے کے لئے بھی کوئی دلیل نہیں ملی، اس لیے اس عبارت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب نسبت نہیں کرنی چاہیے۔
حجر اسود کی فضیلت کے متعلق جو چیز ثابت ہے وہ یہ ہے کہ : حجر اسود کا استلام کرنے سے گناہ مٹ جاتے ہیں، نیز حجر اسود کا استلام کرنے والے کے بارے میں یہ پتھر روزِ قیامت گواہی بھی دے گا، جیسے کہ امام ترمذی نے حدیث نمبر: (961) کے تحت ایک روایت نقل کی ہے اور اسے حسن بھی قرار دیا، اسی طرح امام احمد نے بھی حدیث نمبر: (2796) کے تحت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: (اللہ کی قسم! قیامت کے دن اللہ تعالی حجر اسود کو اٹھائے گا، حجر اسود کی دیکھنے کے لئے دو آنکھیں ہوں گی اور بولنے کے لئے زبان ہو گی، پھر پتھر ان تمام لوگوں کے حق میں گواہی دے گا جس نے اس کا حق طریقے سے استلام کیا ہو گا)
اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
مسند احمد کے محققین کہتے ہیں کہ : اس حدیث کی سند قوی ہے۔
اسی طرح امام ترمذی نے حدیث نمبر: (959) کے تحت ایک روایت ذکر کی اور اسے حسن قرار دیا کہ: عبید بن عمیر کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود اور رکن یمانی پر ایسی بھیڑ لگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تومیں نے پوچھا: ابو عبد الرحمن ! آپ دونوں رکن [یعنی حجر اسود اور رکن یمانی]پر ایسی بھیڑ لگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ تو انہوں نے کہا: اگر میں ایسا کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا ہے: (ان پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کا کفارہ ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1902) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم