ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

روزے دار کیلیے ٹیکوں اور وریدی محلول کا حکم، نیز روزے ٹوٹنے میں نیت کا اثر

سوال

جس وقت کوئی مریض ہسپتال یا ڈسپنسری میں جاتا ہے تو اس وقت اس کی کیا نیت ہو؟ کیا اس کی کھانے پینے کی نیت ہو؟ نیز مریض کا طریقہ علاج کے انتخاب میں کیا کردار ہوتا ہے؟ کیا مریض کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ طریقہ علاج یا علاج کی قسم کا تعین کرے یا علاج کے شیڈول میں تبدیلی لائے؟ حقیقت یہ ہے کہ بیمار جس وقت ہسپتال میں کسی ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے تو وہ کسی عارضے یا بیماری کا علاج کروانے آتا ہے یا کسی ایمرجنسی تکلیف یا ابھی دریافت ہونے والے مرض کے معالجے کیلیے آتا ہے، چنانچہ جس وقت مریض ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے تو مریض اپنے آپ کو کسی بات چیت کے بغیر معالج کے حوالے کر دیتا ہے، ہاں چند ایک سوالات ہو سکتے ہیں جو مریض سے اس کی صحت اور مرض کے حوالے سے پوچھے جاتے ہیں۔
لیکن جہاں تک نیت کا مسئلہ ہے تو نہ ہی مریض علاج کا مطالبہ کرتے ہوئے روزہ توڑنے کی نیت کرتا ہے اور نہ ہی جس وقت ڈاکٹر مریض کا یہ مطالبہ پورا کرنے کی حامی بھرتا ہے وہ مریض کا روزہ توڑنے کی نیت کرتا ہے، بلکہ معالج کی جانب سے روزے دار مریض کے علاج کیلیے کچھ اقدامات کئے جاتے ہیں تو اس کے روزے کے صحیح یا ٹوٹ جانے کا فیصلہ علمائے کرام ہی کرتے ہیں -اللہ تعالی انہیں برکتوں سے نوازے- جیسے کہ مثال کے طور پر علمائے کرام کہتے ہیں کہ: وریدوں میں لگنے والے ٹیکوں سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ، اس حکم میں علمائے کرام نے ٹیکے کی مقدار کا تعین نہیں کیا کہ کتنی مقدار سے روزہ فاسد ہو جائے گا اور کتنی مقدار سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، یعنی ٹیکے کا حکم مقدار کے حوالے سے کوئی حد نہیں رکھتا۔
لیکن جب علمائے کرام نے مریض کو نمکول یا گلوکوز لگانے کا حکم بیان کیا ہے تو انہوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ کیا یہ غذا کا کام کرتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اگر یہ غذا کا کام کرتا ہے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر غذا کیلیے نہیں ہے بلکہ علاج کیلیے ہے تو پھر روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
علمائے کرام کی جانب سے لگائی گئی یہ شرط میرے ہاں قابل احترام ہے لیکن یہ حقیقت سے متصادم ہے؛ کیونکہ ہم ایک ہسپتال کے متعلق بات کر رہے ہیں، یہاں پر کوئی بھی اقدام ہوتا ہے تو وہ مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کیلیے اٹھایا جاتا ہے، میرا مطلب یہ ہے کہ ہسپتال میں جو کچھ بھی ہو گا وہ علاج کے زمرے میں آئے گا، حتی کہ اگر معالج کو غذائی عناصر مریض کے جسم میں داخل کرنے کی ضرورت پڑے جیسے کہ گرمی لگنے کی صورت میں ہوتا ہے کہ پانی کی کمی پوری کرنے کیلیے نمکیاتی محلول استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ جس مریض کو گرمی یا لو لگ جاتی ہے وہ متلی کی وجہ سے پانی نہیں پی سکتا۔
بسا اوقات مریض یہ نہیں چاہتا کہ وہ رمضان میں روزہ توڑ دے اور بعد میں روزے پورے کر لے؛ کیونکہ اس کی ملازمت کی نوعیت ہی کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ معمار ہے، یا لوہے کے کارخانے میں بھٹی پر کام کرتا ہے تو اگر وہ آج روزہ افطار کر لے گا تو اسے اپنے کام کی وجہ سے روزانہ روزہ چھوڑنا پڑے گا اور یہ اس کیلیے قابل قبول نہیں ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقہائے کرام جب روزہ توڑنے والی اشیا کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا مریض یا معالج کی نیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے [جنہیں شرعی اصطلاح میں مفطرات کہتے ہیں]وہ شریعت کی جانب سے واضح طور پر بیان کر دی گئی ہیں اور یا انہی پر دیگر چیزوں کو قیاس کیا گیا ہے۔

شریعت میں واضح طور پر ذکر شدہ مفطرات اشیا یہ ہیں:

کھانا پینا، اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ)
ترجمہ: اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے فجر کے وقت عیاں ہو جائے، پھر رات تک کیلیے روزہ مکمل کرو۔ [ البقرة:187]

تو اس آیت میں طلوعِ فجر تک کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے پھر  رات کی ابتدا تک کھانے پینے پر پابندی ہے اور رات کی ابتدا سورج غروب ہونے سے ہوتی ہے۔

صحیح بخاری (1903) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص خلاف شریعت بات  کرنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے)

اسی طرح بخاری: (1933) اور مسلم: (1155) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص روزے کی حالت میں بھول کر کھا لے یا پی لے تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے؛ کیونکہ اسے اللہ تعالی نے ہی کھلایا پلایا ہے)

اس کے علاوہ اور بھی دلائل ہیں کہ جن میں واضح طور پر بتلایا گیا ہے کہ رمضان میں دن کے وقت کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

کھانے پینے کے ساتھ بہت سے فقہائے کرام نے ان چیزوں کو بھی شامل کیا ہے جو کھانے پینے کی نالی یا کسی اور ذریعے سے پیٹ میں داخل ہو۔

جبکہ کچھ اہل علم نے صرف انہی چیزوں کو روزہ توڑنے والی اشیا میں شامل کیا ہے جو کھانے پینے کا کام کریں، مثلاً: غذائی ٹیکے وغیرہ۔

یہ یقینی بات ہے کہ ٹیکے اور محلول [گلوکوز ، نمکول وغیرہ کی بوتلیں] سب کی سب علاج میں شامل ہوتی ہیں، لیکن بعض ٹیکے ایسے بھی ہیں جو کھانے پینے کا متبادل ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو کھانے پینے کا متبادل نہیں ہیں۔

جبکہ گلوکوز یا نمکول پر مشتمل محلول  جو کہ شریانوں میں لگائے جاتے ہیں یہ سب کے سب غذا کا متبادل ہوتے ہیں، ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، البتہ مثانے کو دھونے کیلیے استعمال ہونے والا محلول روزہ توڑنے کا باعث نہیں بنتا جیسے کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔

پہلے سوال نمبر: (38023) کے جواب میں روزہ توڑنے والی اشیا کے متعلق تفصیلات گزر چکی ہیں، اس میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ:
"روزہ توڑنے والی چوتھی چیز : ایسی اشیا جو کھانے پینے کے حکم میں ہوں :

یہ دو امور پر مشتمل ہوتی ہیں:

1-  روزہ دار کو خون لگانا ، مثلاً:  اگر کسی کا خون بہنے پر اسے خون لگایا جائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ، کیونکہ خون کی پیداوار کھانے پینے کا اصل ہدف ہوتا ہے۔

2- غذائی انجیکشن : جن کے لگانے سے کھانے پینے کی ضرورت نہیں رہتی  ؛  کیونکہ یہ کھانے پینے کے قائم مقام ہے۔
دیکھیں : "مجالس شہر رمضان" از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ صفحہ ( 70 )

لیکن ایسے ٹیکے جو کھانے پینے کا متبادل نہیں ہیں ، البتہ صرف علاج معالجہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو ان کی وجہ سے روزے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، مثلاً:  پنسلین ، انسولین  اور جسم کو چست بنانے والے ٹیکے روزے کو کوئی نقصان نہیں دیتے چاہے وہ رگوں میں لگائے جائیں یا پھر پٹھوں میں ۔دیکھیں فتاوی محمد بن ابراہیم ( 4 / 189 )

تاہم احتیاط اور بہتر یہی ہے کہ یہ سب کچھ رات کے وقت کیا جائے اور روزہ کی حالت میں استعمال سے بچا جائے ۔

گردے واش کروانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ اس میں جسم سے خون نکال کر صاف کیا جاتا ہے اور پھر اس میں کیمیائی اور گلوکوز و نمکول جیسی غذائی چیزیں شامل کر کے دوبارہ جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔
 دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 19 ) " انتہی

اسی طرح ہم پہلے سوال نمبر: (233663) میں بیان کر چکے ہیں کہ :
" کچھ مریضوں کو نمکیاتی محلول رگوں کے ذریعے لگایا جاتا ہے اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؛ کیونکہ اس میں غذائی عناصر [نمکیات، پانی]شامل ہوتے ہیں جو کہ پیٹ میں داخل ہو کر جسم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ "

غذائی اور غیر غذائی ٹیکوں میں فرق کرنے کیلیے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام  نے روزے توڑنے والی اشیا میں یہ بھی شامل کیا ہے کہ: جو چیزیں کھانے پینے کے حکم میں آتی ہیں ان سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مثال کے طور پر غذائی ٹیکے۔ جبکہ غیر غذائی ٹیکے وہ ہوتے ہیں جن سے جسم میں چستی پیدا ہو یا انہیں کسی بیماری سے شفا یابی کیلیے لگایا جائے، چنانچہ کھانے پینے کا فائدہ غذائی ٹیکے ہی دیتے ہیں، اس لیے ایسے تمام ٹیکے جن سے کھانے پینے کا فائدہ نہیں ہوتا ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہے وہ رگ میں لگائے جائیں یا کولہے میں یا کسی بھی جگہ" انتہی

" مجموع فتاوى و رسائل عثیمین" (19/ 199)

یہاں بہتر ہو گا کہ علاج معالجے کے متعلق روزہ توڑنے والی اشیا کے بارے میں اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرار دادوں کا متن آپ کے سامنے رکھیں:

"اسلامی فقہ اکیڈمی کے  دسویں اجلاس منعقدہ بمقام جدہ، سعودی عرب 23 تا 28 صفر 1418 ہجری بمطابق 28 جون تا 3 جولائی 1997ء میں  اسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے علاج معالجے کے متعلق روزہ توڑنے والی اشیا کے بارے میں مقالہ جات پرکھے گئے  اسی طرح  9 تا 12 صفر سن 1418ہجری  بمطابق 14 تا 17 جولائی کو اسلامک آرگنائزیشن برائے میڈیکل سائنسز  کی جانب سے دار بیضا – مراکش  میں اسلامی فقہ اکیڈمی و دیگر اداروں کے تعاون سے منعقد کردہ نویں فقہی سیمینار  کے اعلامیے ، مقالہ جات اور تحقیقات   بھی زیر نظر رہیں، نیز اس موضوع پر علمائے کرام اور طبی ماہرین   کی بات چیت اور گفتگو  بھی سنی گئی ، نیز کتاب و سنت کے دلائل اور فقہائے کرام کا کلام بھی مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل اعلامیہ حتمی قرار پایا:

پہلا نکتہ: درج ذیل امور سے روزہ نہیں ٹوٹے  گا:

1- آنکھ ، ناک اور کان کے قطرے، کان کا لوشن ، ناک کا اسپرے، بشرطیکہ حلق میں اگر یہ چیزیں پہنچیں تو انہیں نگلیں مت بلکہ تھوک دیں۔

2-  دل کے دورے یا ہارٹ اٹیک وغیرہ کے علاج کیلیے زبان کے نیچے رکھی جانے والی گولیاں ، بشرطیکہ حلق تک اثرات پہنچیں تو اسے مت نگلیں۔

3- عورت کی اگلی شرمگاہ میں رکھی جانے والی گولیاں [شافہ] یا لوشن، یا باریک دور بین، یا میڈیکل چیک اپ کیلیے انگلی داخل کرنا۔

4- رحم تک کڑا یا دور بین داخل کرنا۔

5- مرد یا عورت کے پیشاب کے راستے میں داخل ہونے والی باریک  پائپ، یا دور بین ، یا پیشاب کے راستے اندرونی حصوں کا چیک اپ کرنے کیلیے لگایا جانے والا مادہ، یا دوا یا مثانے کی صفائی کیلیے داخل کیا جانے والا محلول۔

6- [دانتوں کی بھرائی کیلیے]دانت کھرچنا، یا داڑھ نکلوانا،  یا دانت صاف کروانا، یا مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کرنا، ان سب صورتوں میں اس وقت تک روزہ صحیح ہو گا جب تک حلق سے کوئی چیز نیچے نہ اترے۔

7- کلی کرنا، غرارے کرنا،  منہ کے علاج کے لیے استعمال ہونے والا سپرے ، شرط یہ ہے کہ حلق میں پہنچنے والی چیز کو مت نگلے۔

8- جلد، پٹھوں، اور رگوں میں بطور علاج لگائے جانے والے ٹیکے ، لیکن اس میں ایسے محلول اور ٹیکے شامل نہیں ہیں جو بطورِ غذا استعمال ہوں۔

9- آکسیجن گیس ۔

10- بے ہوش یا سن کرنے والی گیسیں ، تاہم شرط یہ ہے کہ مریض کو ایسے محلول [گلوکوز، نمکول وغیرہ] نہ دئیے جائیں جو کہ غذا کا متبادل ہوں۔

11-  ایسے مرہم ، تیل اور جلدی پٹیاں جن پر کیمیائی مادہ یا دوائی لگائی جاتی ہے اور وہ جسم میں جلد کے مساموں کے راستے جذب ہو جاتے ہیں۔

12- پتلا اور باریک پائپ شریانوں میں ان کی تصویر کشی یا دل کی شریانوں کا علاج کرنے کیلیے داخل کرنا۔

13- پیٹ کی کھال میں سے آنتوں کو چیک کرنے کیلیے دور بین داخل کرنا یا ان کا جراحی آپریشن کرنا۔

14- ٹیسٹ کیلیے جگر یا دیگر اعضا کا نمونہ لینا بشرطیکہ نمونہ لینے کے لیے کوئی محلول نہ دیا گیا ہو۔

15- چیک اپ کیلیے معدے میں دور بین داخل کرنا بشرطیکہ اسے داخل کرنے کے لیے محلول وغیرہ نہ لگائے  گئے ہوں۔

16- دماغ یا ریڑھ کی ہڈی میں حرام مغز تک کوئی بھی آلہ یا علاج کے لئے دوا داخل کرنا۔

17- خود بخود آ جانے والی قے [اُلٹی] اگر جان بوجھ کر الٹی کی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

دوسرا نکتہ:

بہتر یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام صورتوں میں اگر بغیر کسی ضرر اور نقصان کے علاج افطاری کے بعد تک مؤخر کیا جانا ممکن ہو تو معالج اسی کا اہتمام کرے اور مریض کو بھی اسی کی ترغیب دلائے" انتہی
ماخوذ از: مجلہ اسلامی فقہ اکیڈمی

دوم:

ایسے مزدور جو مزدوری کرتے ہوئے دھوپ اور گرمی سے متاثر ہوتے ہیں مثلاً:  معمار اور مستری ، لوہے اور اسٹیل مل میں کام کرنے والے  افراد  ان کیلیے روزہ چھوڑنے کی رخصت نہیں ہے، تاہم اگر انہیں پیاس کی شدت کے باعث موت کا خدشہ ہو یا بیماری لاحق ہونے کا اندیشہ ہو  تو رخصت پر عمل کر سکتے ہیں ،یہ مزدور روزہ رکھنے کیلیے سحری کا اہتمام کرے اور روزہ رکھ لے، پھر اگر روزہ رکھنے کے بعد اسے شدید مشقت  کا سامنا ہو تو  اپنی جان بچانے کیلیے  اتنی مقدار میں کھا پی لے جس سے جسمانی ضرورت پوری ہو جائے اور بقیہ دن کھانے پینے سے احتراز کرے اور بعد میں اس روزے کی قضا دے۔

اور یہ کہنا کہ اسے روزوں کی قضا کرنے کا وقت ہی نہیں ملے گا تو یہ بات صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اس کیلیے ممکن ہے کہ وہ اپنی چھٹی کے دنوں میں روزے رکھ لے، یا روزے رکھنے کیلیے چھٹی لے لے۔

نیز اگر یہ مزدور نمکول یا گلوکوز کا سہارا بھی لیتا ہے تو اس سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ نمکول یا گلوکوز استعمال کرنے سے اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا، جیسے کہ پہلے اس کی مکمل تفصیل گزر چکی ہے۔

نیز یہ حیلہ بازی میں شامل ہو گا جو کہ حرام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (10/252) میں ہے کہ:
" روزے دار علاج کیلیے رمضان میں دن کے وقت پٹھوں یا رگ میں ٹیکا لگوا سکتا ہے یہ جائز ہے، تاہم رمضان میں دن کے وقت غذائی ٹیکے لگوانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا حکم کھانے پینے کا ہے، نیز ایسے ٹیکے لگوانا رمضان میں روزہ توڑنے کیلیے حیلہ بازی میں شمار ہو گا، اور اگر علاج کیلیے ٹیکے رات کے وقت لگوائے جائیں تو یہ سب سے بہتر ہے" انتہی

نیز محنت اور مشقت طلب مزدوری کرنے والے لوگوں کے روزے سے متعلق مزید جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (12592) اور اسی طرح (43772) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

سوم:

حیلے بازی میں نیت کے ساتھ الٹ معاملہ کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص سفر ہی اس نیت سے کرتا ہے کہ روزہ چھوڑنے کی رخصت حاصل کرے تو اس پر سفر کرنا اور پھر روزہ چھوڑنا دونوں ہی حرام ہو جائیں گے، لیکن اگر کوئی شخص اس نیت سے سفر نہیں کرتا تو اس کا حکم یہ نہیں ہو گا۔

حنبلی فقہا میں سے کشاف القناع کے مصنف اپنی کتاب میں صفحہ: (2/312) میں لکھتے ہیں کہ:
"اگر کوئی شخص روزے چھوڑنے کی رخصت حاصل کرنے کیلیے سفر کرے تو اس پر سفر اور روزہ چھوڑنا دونوں ہی حرام ہو ں گے، کیونکہ اس کے سفر کرنے کا مقصد ہی روزہ چھوڑنا ہے۔ اس کیلیے روزہ چھوڑنا اس لیے حرام ہے کہ اس وقت اس کے پاس روزہ چھوڑنے کا کوئی عذر نہیں ہے، جبکہ سفر اس لیے حرام ہے کہ یہ سفر حرام طریقے سے روزہ چھوڑنے کا ذریعہ بن رہا ہے" انتہی مختصراً

واللہ اعلم.

ماخذ: اسلام سوال و جواب