جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اولیاء ہمارے محافظ ہیں، اور اس کیلیے قرآن کی آیت کو دلیل بناتا ہے

سوال

میرا ایک دوست ہے اس کا ماننا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر نیک لوگ جنہیں وہ اولیاء اللہ کہتا ہے مثلاً: عبدالقادر جیلانی وغیرہ یہ اللہ کے ولی ہیں اور اس دنیا میں اللہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہمارے مدد گار اور محافظ ہیں، وہ سورہ مائدہ کی اس آیت کو دلیل بناتا ہے: (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ) بیشک تمہارا ولی اللہ، رسول اللہ اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں، نمازیں قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں اور وہ رکوع کرنے والے ہوتے ہیں۔[آیت:55 ] میں امید کرتا ہوں کہ اس آیت کا صحیح معنی بتلا دیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فرمانِ باری تعالی : (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ) بیشک تمہارا ولی اللہ، رسول اللہ اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، نمازیں قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں اور وہ رکوع کرنے والے ہوتے ہیں۔[المائدہ:55 ]

میں ولی کا معنی  محبت کرنے والا، دوست اور مدد گار ہے، اس معنی  کیلیے آیت کا سیاق اور عربی زبان دونوں ہی دلیل ہیں۔

لغت اس طرح کہ "القاموس المحيط" (ص 1344)  میں ہے کہ:
"وَلْیٌ:  قربت اور نزدیکی  کے معنی میں ہے۔۔۔
اسی سے  اَلْوَلِيُّ: اسم ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے محبت کرنے والا، دوست اور مدد گار" ختم شد

آیت کا سیاق اس طرح دلیل ہے کہ:  اس آیت سے پہلے یہود و نصاری کو اپنا دوست بنانے سے روکا گیا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ * فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ * وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ )
ترجمہ: اے ایمان والو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ سب ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم میں سے کسی نے ان کو دوست  بنایا تو وہ بھی انہیں سے ہے۔ یقیناً اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا [51] آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے۔ وہ انہی (یہود و نصاریٰ ) میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ : " ہم ڈرتے ہیں کہ کسی مصیبت  میں نہ پڑ جائیں" ہو سکتا ہے کہ جلد ہی اللہ (مومنوں کو) فتح عطا فرما دے یا اپنی  طرف سے کوئی اور بات ظاہر کر دے تو جو کچھ یہ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں ان پر نادم ہو کر رہ جائیں گے [52] اور اہل ایمان یوں کہیں گے : کیا یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی بڑی بھاری قسمیں اٹھا کر کہتے تھے کہ : "ہم تمہارے ساتھ ہیں" ایسے منافقوں کے اعمال برباد ہوگئے اور انہوں نے بالآخر نقصان ہی اٹھایا۔[المائدة :51 - 53]

اس آیت کی تفسیر میں ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان: (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ۔۔۔) یہ آیت ان لوگوں کو مخاطب کر رہی ہے جن کو کہا گیا ہے کہ: (لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ...) "  ختم شد
"المحرر الوجيز" (2 / 208)

نیز یہاں پر یہود و نصاری کو اپنا ولی بنانے سے ممانعت  کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مدد مت کریں، ان سے دوستی مت رکھیں اور ان سے دلی محبت نہ کریں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ )
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی  مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں  اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح  کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی  ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی جماعت ہے۔ سن لو ! اللہ کی جماعت کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔  [المجادلہ:22]

اگر اس آیت کا یہ معنی لیا جائے کہ ان سے حصولِ مفاد یا ازالہ نقصان  کیلیے مدد طلب کرنا منع  ہے  تو یہ بات غلط ہے، اس کا تصور بھی کسی عقل مند شخص کے ذہن میں نہیں آ سکتا۔

تو حاصل یہ ہوا کہ:  آیت کے سیاق کے مطابق  اس آیت میں ولی کا مطلب  محبت، دوستی اور مدد کرنے والا ہے، اور یہی معنی ائمہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔

چنانچہ طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی: (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ۔۔۔) فرما کر یہ مراد لے رہے ہیں کہ: مومنو! تمہارے مدد گار اللہ اور اس کے رسول ہیں  اور وہ مومن بھی تمہارے مدد گار ہیں جن کے اوصاف اللہ تعالی نے تمہارے لیے بیان کئے ہیں، جبکہ یہود و نصاری جن کے بارے میں اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ ان کی دوستی  سے اظہار براءت کر دو اور تمہیں ان کو دوست بنانے سے روکا ہے ، تو وہ تمہارے مدد گار اور  دوست نہیں ہو سکتے، بلکہ وہ یہود و نصاری ایک دوسرے کے دوست ہیں، لہذا ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست اور مدد گار مت بناؤ" ختم شد
"تفسیر طبری" (8 / 529)

دوم:

اس شخص نے آیت میں مذکور اولیا سے صرف عبد القادر جیلانی جیسے نیکی اور تقوی میں مشہور مخصوص لوگ مراد لیے ہیں  اور یہ تخصیص بلا دلیل ہے، بلکہ بلا علم  اللہ تعالی کے ذمے کسی بات کو لگانا ہے؛ کیونکہ آیت مبارکہ میں یہ بالکل واضح ہے کہ مومنوں میں سے ہر وہ شخص ولی ہے جو پابندی سے نماز قائم کرے، زکاۃ ادا کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ)
ترجمہ: بیشک اور وہ لوگ [بھی تمہارے ولی ]ہیں جو ایمان لائے، نمازیں قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں اور وہ رکوع کرنے والے ہوتے ہیں۔[آیت:55 ]

اس بارے میں امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے اس فرمان میں لفظ " وَالَّذِينَ " عام ہے اس میں تمام مومن شامل ہوتے ہیں؛ چنانچہ اس کے بارے میں ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہم سے آیت (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا) کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اس سے مراد علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ: علی بھی جملہ مومنوں میں سے ہیں، یعنی ان کا مطلب تھا کہ اس آیت سے تمام مومنین مراد ہیں [صرف  علی رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں] نحاس رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ بات بالکل واضح ہے؛ کیونکہ "الَّذِينَ" کا صیغہ جمع  کیلیے ہے۔" ختم شد
"تفسیر قرطبی" (8 / 54)

نیز اس شخص کی بیان کردہ تفسیر  شرکیہ ہے جو کہ کتاب و سنت کی ثابت شدہ نصوص سے یکسر مسترد ہو جاتی ہے؛ نیز تمام مسلمانوں کے ہاں جو اسلامی عقیدہ پایا جاتا ہے   وہ بھی اس کی تردید کرتا ہے؛ کیونکہ سب کا یہ عقیدہ ہے کہ نفع اور نقصان  سب کچھ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، لہذا نفع اور نقصان صرف اللہ تعالی سے ہی طلب کیا جائے گا۔

جیسے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
( قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: میں اپنے لیے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں ، ما سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ڈھیروں بھلائی اکٹھی کر لیتا اور مجھے کبھی برائی چھوتی  بھی نہ ، میں تو صرف ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ایمان لانے والی قوم کو۔[الأعراف :188]

ابو حیان اندلسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کا اظہار ہے اور ربوبیت کے خصائص کی آپ سے نفی ہے کہ آپ کے پاس اختیارات اور علم غیب نہیں ہے، بلکہ سب کچھ اللہ کے سپرد ہونے کا بیان بڑے تاکیدی انداز میں کیا گیا کہ:  میں اپنے لیے کسی قسم کے نفع نقصان کا مالک نہیں  تو میں علم غیب کیسے جان سکتا ہوں؟ جیسے کہ اللہ تعالی نے یہی بات سورۃ یونس میں بیان فرمائی: (وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ * قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ )اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ یہ وعید کا وعدہ کب ہے؟ ٭ آپ کہہ دیں: میں اپنے لیے کسی نفع یا نقصان کا مالک نہیں ہوں ، ما سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور ہر امت  کیلیے ایک وقت متعین ہے۔" ختم شد
"البحر المحيط" (4 / 552)

اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
( وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا ، قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا ، قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ، قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا ، إِلَّا بَلَاغًا مِنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ، حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا ، قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا ، عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ، إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ، لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا )
ترجمہ: اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں [19] آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا [20] کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں [21] کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا   اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی نہیں پا سکتا [22] البتہ میرا کام اللہ کی بات اور اس کے پیغامات (لوگوں کو) پہنچا دینا ہے (اب) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ [23] (ان کی آنکھ نہ کھلے گی) یہاں تک کہ اسے دیکھ لیں جس کا ان کو وعدہ دیا جاتا ہے  پس عنقریب جان لیں گے کہ کس کا مدد گار کمزور اور کس کی جماعت کم ہے [24] کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے دوری کی مدت مقرر کرے گا  [25] وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ [26] سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے [27] تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام  پہنچا دیئے ہیں اور جو کچھ ان رسولوں کو در پیش ہوتا ہے اس کا وہ احاطہ کیے ہوئے ہے اور ہر چیز کو گن کر اسے ریکارڈ رکھا ہوا ہے [الجن :19 - 28]

شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: (قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا) [کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں] کیونکہ میں محض بندہ ہو، میرے اختیار یا تدبیر میں کسی قسم کا  تصرف نہیں ہے۔

پھر اللہ تعالی نے فرمایا: (قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ) [کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا   ] یعنی کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کی پناہ میں آ کر وہ  مجھے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔

اگر ساری مخلوقات میں سے اکمل ترین رسول کی یہ حالت ہے کہ وہ کسی قسم کے نفع یا نقصان کے مالک نہیں، اور اگر اللہ تعالی انہیں کسی قسم کی سزا دینے کا ارادہ فرما لے تو کوئی انہیں بچانے والا نہیں ، تو دوسروں کو تو  بالاولی  آپ سے ہیچ اور کمتر ہونا چاہیے۔" ختم شد
مزید تفصیلات کیلیے آپ لازمی طور پر سوال نمبر:  (200862) کا مطالعہ ضروری کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب