اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

طہارت کے متعلق وسوسوں کے ساتھ تعامل

سوال

میں وسوسوں سےبہت پریشان ہوں، عام طور پر مجھے وسوسہ اس بات پر آتا ہے کہ میرا وضو باقی ہے یا نہیں؟ پھر میری اس کے متعلق اندر ہی اندر لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ معدے میں پیدا ہونے والی آوازوں کے باعث میں بہت پریشان ہو جاتی ہوں، مجھے معلوم ہے کہ ان آوازوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لیکن کچھ  مقعد میں بھی پیدا ہوتی ہیں، میں ابھی تک ان سے نجات نہیں پا سکی، تو کیا ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ یا میرا وضو ان سے ٹوٹ جاتا ہے؟

میرے لیے یہ بھی کوئی آسان بات نہیں ہے کہ میں ہر بار وضو کروں خصوصاً جب میں یونیورسٹی میں ہوں یا گھر سے باہر ہوں؛ کیونکہ وضو کرنے میں کافی وقت لگتا ہے، مجھے پہلا اپنا حجاب اتارنا پڑتا ہے، پھر جرابیں  بھی اور اس طرح میری عبادت میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جب واقعی وضو ٹوٹ جائے تو مجھے وضو کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے، لیکن اصل مسئلہ ان وسوسوں کا ہے، مجھے اس بات کا احساس ہے کہ جب وضو ٹوٹ جائے تو مجھے دوبارہ وضو کرنا ہے، اس میں کوئی  مضائقہ نہیں، مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب میں اپنی نماز کو جاری رکھوں۔ تو اگر میری نمازیں قبول ہی نہ ہوتی ہوں تو میرا کیا بنے گا؟ کیونکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ میرا وضو ہے، لیکن حقیقت میں میرا وضو نہیں ہوتا، مجھے اس بارے میں بہت پریشانی ہے کہ اللہ تعالی میری عبادات، توبہ کو قبول کرتا ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل مجھے میرے  وضو کی ایک غلطی کا علم ہوا کہ صرف کان کے سوراخ کا مسح ہی ضروری نہیں ہے بلکہ مجھے مکمل کان کا مسح کرنا چاہیے، تو میں نے اپنی اس غلطی کی اصلاح کر لی، لیکن اب مجھے یہ پریشانی بھی لاحق رہنے لگی ہے کہ شاید میری سابقہ نمازیں اور وضو اس غلطی کی وجہ سے قبول نہیں ہوں گے!

مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میں شدید نوعیت کے وسوسوں میں مبتلا ہوں، بسا اوقات مجھے نماز کے دوران ایسے افکار آتے ہیں اور عجیب و غریب تصویریں میرے سامنے بن جاتی ہیں ، جن  کے بارے میں نماز کے دوران میں سوچتی بھی نہیں ہوں لیکن پھر بھی یہ سامنے آ جاتے ہیں، مجھے احساس ہونے لگتا ہے کہ ان سے میری نماز باطل ہو جائے گی، تو مجھے بتلائیں کہ نجاست کیا چیز ہے؟  غبار؟ بال؟ پاخانے کی بد بو؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ کے لیے نصیحت یہ ہے کہ آپ نماز کے دوران یا نماز سے باہر کسی بھی حالت میں شکوک و شبہات کے پیچھے مت لگیں، شک ذہن میں آنے لگے تو اسے جھٹک دیں، آپ بالکل پریشان نہ ہوں اور نہ ہی سابقہ نمازوں کے بارے میں افسوس کریں، آپ بالکل صحیح کر رہی ہیں، بلکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان پر عملی طور پر چل رہی ہیں ؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک آدمی کی مشکل پیش کی گئی کہ اسے نماز میں خیال آتا ہے کہ نماز دوران اس کی ہوا خارج ہو گئی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس وقت تک نماز مت چھوڑو جب تک تم آوازنہ سن لو یا بد بو نہ سونگھ لو) بخاری: (137) مسلم: (361)

یعنی مطلب یہ ہے کہ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ وضو ٹوٹ گیا ہے  تو تب ہی نماز چھوڑیں۔

لہذا شکوک و شبہات اور تخیلات کا کوئی اعتبار نہیں ہے،  نماز اسی وقت توڑیں جب آپ کو یقین ہو کہ آپ بے وضو ہو گئی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی حکم ہے، آپ کی نماز بھی صحیح ہے، چاہے آپ کی نماز وضو ٹوٹنے کے بعد والی ہو۔

البتہ اگر مسلمان کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس نے وضو کے بغیر نماز ادا کی تھی اور وقت بھی ابھی باقی تھا تو اسے وہ نماز دوبارہ پڑھ لینی چاہیے، لیکن اگر وہ یقین کی حد تک نہ پہنچے تو پھر اس کی نماز صحیح ہے، اور اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔

دوم:

کانوں کے مسح کے حوالے سے اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا مسح واجب ہے یا مستحب؟ تو جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ کانوں کا مسح مستحب ہے واجب نہیں ہے، جبکہ حنبلی فقہائے کرام اسے واجب کہتے ہیں،  تاہم امام احمد رحمہ اللہ سے جو منقول ہے اس میں یہ ہے کہ جو شخص کانوں کا مسح نہ کرے چھوڑ دے تو اس کا وضو اس کے لیے کافی ہو گا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی (1/97) میں کہتے ہیں:
“خلال کہتے ہیں: ابو عبد اللہ [امام احمد کی کنیت] سے تمام نے نقل کیا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر یا بھول کر کانوں کا مسح نہ کرے تو اس کا وضو اس کے لیے کافی ہو گا” ختم شد

لہذا اگر کوئی شخص کانوں کا مسح چھوڑ دے، یا کان کے کچھ حصے کا مسح کرے تو اس کا وضو جمہور اہل علم کے ہاں صحیح ہے، اور یہی موقف راجح ہے، اس لیے آپ اپنی سابقہ نمازوں کے متعلق بالکل پریشان نہ ہوں، آپ کی وہ تمام نمازیں ان شاء اللہ صحیح ہیں۔

آپ وسوسوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کی بھر پور کوشش کریں، ان کی جانب توجہ مت دیں اور نہ ہی وسوسوں پر عمل پیرا ہوں، ساتھ میں اللہ تعالی سے مدد طلب کرتی رہیں اور دعا کریں، نیز شیطان مردود کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتی رہیں۔

اگر پھر بھی آپ وسوسوں کی بیماری سے نجات نہیں پاتیں تو پھر ہم آپ کو ماہر نفسیات سے رجوع کرنے کا مشورہ دیں گے؛ کیونکہ شدید نوعیت کے وسوسے ایک معروف بیماری ہے، اور اس کے لیے طبی علاج کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے علاج کے لیے گولیاں  کھائی جاتی ہیں یا کسی اچھے اور بہترین نفسیاتی ماہر کے ساتھ بیٹھک کرنی پڑتی ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب