الحمد للہ.
الحمدللہ:قیام اللیل کے دوران دو رکعت کی نیت کے ساتھ قیام کرنے والا شخص بھول کر تیسری کے لئے کھڑا ہو جائے تو جب بھی اسے یاد آئے گا وہ بیٹھ جائے گا، اور اگر اس نے پہلے تشہد پڑھ لیا تھا تو اب دوبارہ نہیں پڑھے گا، پھر سجدہ سہو کر کے سلام پھیرے گا۔
اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ تیسری رکعت جاری رکھتے ہوئے اسے وتر شمار کر لے؛ کیونکہ اس نے شروع سے وتر کی نیت ہی نہیں کی؛ اس کی نیت تو صرف دو رکعت کی تھی۔
"شرح منتهى الإرادات" (1/ 222) میں ہے کہ:
"اگر کوئی رات کی نماز میں دو رکعت نفل کی نیت کرے اور تیسری کے لئے کھڑا ہو جائے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے نماز فجر میں تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا ہے، اس پر امام احمد نے صراحت کے ساتھ اپنا موقف دیا ہے، اس کی دلیل یہ حدیث ہے: (رات کی نماز دو، دو رکعت ہے)، ویسے بھی رات کی نماز دو رکعت مشروع کی گئیں ، اس طرح ان کی فرائض سے مشابہت ہے" ختم شد
اس سے قبل انہوں نے فجر کی نماز میں بھول کر تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہونے والے کے بارے میں کہا:
"اور اگر نمازی بھول کر زائد رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے مثلاً: فجر میں تیسری، مغرب میں چوتھی اور چار رکعت والی نمازوں میں پانچویں کے لئے تو جیسے ہی اسے یاد آئے کہ یہ رکعت زائد ہے تو فوری تکبیر کہے بغیر ہی بیٹھ جائے، اس کے لئے بیٹھنا واجب ہے؛ مبادا نماز کی کیفیت میں تبدیلی نہ آئے، نیز بھول کر کھڑے ہونے سے پہلے اگر تشہد پڑھ چکا ہے تو اب تشہد نہیں پڑھے گا؛ کیونکہ تشہد اپنی جگہ پر ادا ہو گیا تھا۔
اور اگر تشہد کی دعا تو پڑھی تھی لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہیں پڑھا تھا تو اب درود پڑھ کر سجدہ سہو کرے گا اور سلام پھیر دے گا، لیکن اگر بھول کر کھڑے ہونے سے پہلے تشہد بھی نہیں پڑھا تھا تو اب تشہد بھی پڑھے گا اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے گا۔
اور اگر سلام پھیرنے کے بعد ہی یاد آیا تو سجدہ سہو کرے گا، اس کی دلیل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، آپ کہتے ہیں کہ: "ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی پانچ رکعات پڑھا دیں، جب آپ [سلام کے بعد ] مڑے تو لوگوں نے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ : آپ نے پانچ رکعت پڑھا دی ہیں، تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوبارہ مڑے اور دو سجدے [سہو کے لئے] کیے اور پھر سلام پھیر دیا، پھر فرمایا: میں تمہاری طرح بشر ہوں، میں بھی اسی طرح بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو، تو اگر تم میں سے کوئی بھول جائے تو دو سجدے [سہو کے لئے ]کر لے"
ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں: " میں تمہاری طرح بشر ہوں، مجھے یاد ایسے ہی رہتا ہے جیسے تمہیں رہتا ہے، اور میں بھی اسی طرح بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو، تو پھر آپ نے سہو کے لئے دو سجدے کیے"
ایک اور روایت میں ہے کہ: "جب آدمی نماز میں اضافہ کر دے یا کمی کر بیٹھے تو دو سجدے کرے" اس روایت کو مسلم نے اپنی اسانید سے بیان کیا ہے۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جب امام تراویح میں تین رکعات پڑھا دے تو کیا کرے؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"اگر تیسری رکعت کے لئے بھول کر کھڑا ہو جائے تو واپس بیٹھ جائے، چاہے اس نے سورت فاتحہ پڑھ لی ہو، تب بھی بیٹھ جائے، تشہد پڑھے اور سلام پھیرے ، پھر دو سجدے سہو کے کرے؛ کیونکہ امام احمد نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ انسان جب رات کی نماز میں تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو وہ ایسے ہی ہے کہ جیسے فجر کی نماز میں تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا ، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جب کوئی انسان نماز فجر میں تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو اس پر واپس بیٹھنا واجب ہے؛ کیونکہ فجر کی نماز تین رکعت ادا ہی نہیں ہو سکتی، تو اسی طرح رات کی نماز بھی دو رکعت سے زیادہ نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (رات کی نماز دو، دو رکعت ہے) میں نے کچھ ائمہ کے بارے میں سنا ہے کہ امام جب تراویح کی نماز میں بھول کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور مقتدی اسے یاد کروائیں تو وہ اپنی نماز جاری رکھتا ہے، اور 4 رکعات پڑھا دیتا ہے، تو یہ در حقیقت ان کی جہالت کی علامت ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے بھی متصادم ہے کہ: (رات کی نماز دو، دو رکعت ہے) تو جب انسان کو نماز تراویح یا قیام اللیل میں یاد کروایا جائے چاہے وہ قراءت بھی شروع کر چکا ہو تو ضروری ہے کہ واپس بیٹھے، تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے، پھر سلام کے بعد دو سجدے سہو کے لئے کرے اور پھر دوبارہ سلام پھیرے" ختم شد
"جلسات رمضانية"
مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں آپ پر لازمی تھا کہ جیسے ہی آپ کو یاد آیا تو آپ فوری بیٹھ جاتیں، اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دیتیں، اور پھر ایک رکعت پڑھ کر اپنی نماز کو وتر بنا دیتیں۔
واللہ اعلم