اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

رمضان میں قیام کا ثواب پانے کے لیے رمضان کی ساری راتوں میں قیام کرنا شرط ہے؟

سوال

اگر کوئی شخص رمضان کی ایک رات یا زیادہ راتیں قیام نہ کر سکے تو کیا وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان میں داخل ہو گا کہ: (جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں)، یا یہ ثواب پانے کے لیے رمضان کی تمام راتوں میں قیام کرنا لازم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص رمضان میں قیام کرے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید سے تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2009) اور مسلم : (759) نے روایت کیا ہے۔

اور حدیث کا ظاہر یہی ہے کہ رمضان کی ساری راتوں میں قیام ہونا چاہے یہ قیام مسجد میں با جماعت ہو یا گھر میں، لہذا جو بھی رمضان میں با جماعت قیام کرے یا اکیلے قیام کرے وہ اس میں شامل ہو گا چاہے مسجد میں قیام کرے یا گھر میں۔

علامہ صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد رمضان کی ساری راتوں کا قیام ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص رمضان کی کچھ راتوں میں قیام کرے تو اسے مذکورہ مغفرت حاصل نہیں ہو گی، یہی مفہوم واضح طور پر درست ہے۔" ختم شد
"سبل السلام" (4/182)

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص رمضان میں قیام کرے) یعنی پورا ماہ رمضان آغاز سے لے کر انتہا تک مکمل مہینہ اس میں شامل ہے۔" ختم شد
"شرح بلوغ المرام" (3 / 290)

اسی طرح الشیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماہِ رمضان میں قیام ہر رات کے کچھ حصے میں قیام کرنے سے ہو جائے گا، مثلاً: آدھی، یا ایک تہائی رات تک قیام کرنا چاہے یہ گیارہ رکعت پڑھ کر کیا جائے یا 23 رکعات پڑھ کر، اسی طرح اگر محلے کی مسجد میں امام ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں قیام کروا کر چلا جاتا ہے تو تب بھی رمضان کا قیام ہو جائے گا۔" ختم شد
فتاوی ابن جبرین: (24/ 9) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

تاہم اگر کوئی شخص رمضان کی کچھ راتوں میں قیام کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں کر سکا تو امید ہے کہ مذکورہ حدیث میں بیان کیا گیا ثواب درج ذیل حدیث کی وجہ سے اسے بھی ملے گا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے : (جب کوئی بندہ بیمار ہو جائے یا سفر پر ہو تو اس کے لیے اتنا ہی اجر لکھا جاتا ہے جتنا وہ حضر یا صحت کی حالت میں عمل کیا کرتا تھا۔) اس حدیث کو بخاری: (2996) نے روایت کیا ہے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمان نبوی: (جو شخص رمضان میں قیام کرے) یعنی رمضان کی تمام راتوں میں قیام کرے یا کسی عذر کی وجہ سے کچھ راتوں میں کرے بشرطیکہ اس کی نیت یہ ہو کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تو وہ قیام ضرور کرتا۔" ختم شد
"ارشاد الساری" (3/425)

چنانچہ اگر کوئی شخص رمضان کی چند راتوں میں قیام سستی کی وجہ سے نہیں کرتا تو حدیث مبارکہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے مذکورہ فضیلت حاصل نہیں ہو گی۔

اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ نماز تراویح با جماعت مسجد میں ادا کرنے کی کوشش کرے، تاہم اگر کوئی رکاوٹ کھڑی ہو جائے یا مصروفیت کی وجہ سے مسجد میں قیام رہ جائے تو پھر اپنے گھر میں ہی حسب استطاعت قیام کا اہتمام کرے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب