جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

مقصود لذاتہ اور غیر مقصود لذاتہ روزوں میں ایک روزہ کئی نیتوں سے رکھنے کا مطلب

سوال

ایک روزے میں کئی نیتوں کو جمع کرنے کے لیے ہم مقصود لذاتہ اور غیر مقصود لذاتہ روزوں میں کیسے تفریق کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

متعدد عبادات کی مشترکہ نیت کرنے کا اصول یہ ہے کہ: دو میں سے ایک عبادت غیر مقصود لذاتہ ہو تو وہ دوسری عبادت کے ساتھ مشترکہ نیت کے ذریعے شامل ہو سکتی ہے۔

یہ اصول روزوں اور دیگر عبادات میں بھی روا ہے۔

چنانچہ روزوں میں سے مقصود لذاتہ روزے : ماہ رمضان، قضائے رمضان، نذر کے روزے، اور مخصوص ایام کے روزے مثلاً: یوم عرفہ، عاشورا، سوموار اور جمعرات کے روزے شامل ہیں۔ -اگر چہ ان ایام کے متعلق اہل علم کا اختلاف موجود ہے کہ کیا یہ سب دن مقصود لذاتہ ہیں یا نہیں؟-

جبکہ غیر مقصود لذاتہ روزوں سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی دن میں مستحب روزہ رکھنا ہو، اس روزے کے لیے کوئی دن مخصوص نہ ہو، جیسے کہ ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کا عمل ہے۔

لہذا یوم عرفہ یا سوموار کے دن کا روزہ اور مہینے میں رکھے جانے والے تین روزوں میں سے کسی بھی ایک دن کی نیت مشترکہ ہو سکتی ہے۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية "(12/ 24) میں ہے کہ:
" کوئی شخص دو عبادتوں کی مشترکہ نیت کرنا چاہے کہ دونوں کی بنیاد تداخل [یعنی یکساں کیفیت اور مقصد ] پر مبنی ہو جیسے کہ جمعہ اور غسل جنابت، یا غسل جنابت اور حیض کا غسل، یا جمعہ اور عید کا غسل وغیرہ۔ یا پھر دونوں میں سے ایک عبادت غیر مقصود ہو جیسے کہ تحیۃ المسجد کی رکعات فرض یا کسی بھی سنت کے ساتھ مشترک نیت کے ساتھ پڑھی جائیں تو اس سے کسی بھی عبادت میں کوئی قدغن پیدا نہیں ہو گی؛ کیونکہ غسل کی بنیاد تداخل پر مبنی ہے، جبکہ تحیۃ المسجد وغیرہ جیسی نمازیں غیر مقصود لذاتہ ہیں ؛ کیونکہ اس نماز میں مسجد جیسی جگہ پر نماز ادا کرنا مقصود ہوتا ہے اس لیے تحیۃ المسجد وغیرہ کی رکعات کسی دوسری نماز کے ساتھ مشترکہ نیت کے ساتھ اکٹھی ہو سکتی ہے۔

جبکہ دو ایسی عبادات کی مشترکہ نیت کرنا جو کہ مقصود لذاتہ ہیں جیسے کہ ظہر کی فرض رکعات اور سنت مؤکدہ کی رکعات تو یہ نمازیں مشترکہ نیت کے ساتھ ادا کرنا درست نہیں ہیں؛ کیونکہ یہ دونوں نمازیں الگ الگ مطلوب ہیں لہذا ظہر کی چار رکعات یا ظہر کی چار سنت مؤکدہ میں سے کوئی بھی نماز ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ نیت سے ادا نہیں ہو سکتی۔" ختم شد

ڈاکٹر سلیمان اشقر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسی صورتوں میں ایک عمل سے دو عبادات ہو جانے کے قائل حضرات اس لیے یہ موقف رکھتے ہیں کہ: شارع کا مقصود ایک ہی فعل سے حاصل ہو جاتا ہے چنانچہ تحیۃ المسجد فرض رکعات کے ادا کرنے سے بھی ادا ہو جائے گا چاہے وہ تحیۃ المسجد کی نیت کرے یا نہ کرے؛ کیونکہ تحیۃ المسجد کا اصل ہدف یہ ہے کہ مسجد میں نماز ادا کی جائے، اور وہ فرض کی ادائیگی سے ہو رہی ہے۔" ختم شد
"مقاصد المكلفين" صفحہ: 255

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا ہم ایک ہی عبادت میں کئی عبادات کی ادائیگی کی نیت کر سکتے ہیں؟ مثلاً: ایک شخص مسجد میں داخل ہوا تو ظہر کی اذان ہو رہی تھی تو نمازی نے دو رکعت ادا کی اور اس میں تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضو، اور ظہر کی دو سنت مؤکدہ ادا کرنے کی نیت جمع کر لی، تو کیا یہ صحیح ہو گا؟"

انہوں نے جواب دیا کہ:
"یہ بہت اہم اصول ہے کہ: کیا کئی عبادات ایک ہی مشترکہ نیت کے ساتھ ادا کی جا سکتی ہیں؟ تو اس بارے میں ایک اصول ذکر کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں: "اگر کوئی عبادت کسی کامل عبادت کا جز ہے تو ان کی مشترکہ نیت نہیں ہو سکتی" یہ ایک ضابطہ ہے۔

اس کی مثال یوں سمجھیں: فجر کی دو رکعت فرض ہیں، اور دو ہی فجر کی سنتیں ہوتی ہیں، لیکن یہ سنتیں الگ سے تو ہیں لیکن نماز فجر کا حصہ ہیں، یعنی یہ سنتیں نماز فجر کی تکمیل کرتی ہیں، اس لیے فجر کی سنتیں فجر کی فرض رکعات والا حکم نہیں لے سکتیں، نہ ہی فجر کی فرض رکعات فجر کی سنتوں کا حکم لے سکتی ہیں؛ کیونکہ فجر کی سنت مؤکدہ فرض رکعات کے تابع ہیں۔ لہذا جب کوئی عبادت ؛ کامل عبادت کا جز ہو تو جُز؛ کُل کا قائم مقام نہیں بن سکتا اور نہ ہی کل؛ جز کا قائم مقام بن سکتا ہے۔

ایک مثال سے سمجھیں: جمعہ کی نماز کے بعد رکعتیں بھی دو ہی ہوتی ہیں؛ تو کیا یہ ممکن ہے کہ انسان جمعے کی نماز پر ہی اکتفا کرے اور بعد والی رکعات نہ پڑھے ؟

تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ: نہیں ، کیوں؟ اس لیے جمعہ کے بعد والی دو رکعات جمعہ کے تابع ہیں۔

دوم: اگر دونوں عبادتیں الگ الگ اور مستقل ہیں، کسی عبادت کا دوسری سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دونوں ہی مقصود لذاتہ ہیں تو دونوں عبادتیں ایک ہی مشترکہ نیت سے ادا نہیں ہو سکتیں۔

اس کی مثال یوں سمجھیں: کوئی کہے کہ: میں ظہر سے پہلے کی دو رکعتیں پڑھنے لگا ہوں اور ان میں میری نیت چار سنتِ مؤکدہ ہوں گی؛ اس لیے کہ ظہر کی پہلے والی سنت مؤکدہ چار رکعات ہوتی ہیں جنہیں دو سلام سے پڑھا جاتا ہے، چنانچہ یہ کہتا ہے کہ: میں پڑھوں گا دو رکعتیں ہی لیکن ان میں نیت چار رکعتوں کی ہو گی تو یہ ناجائز ہے؛ کیونکہ یہاں دو ، دو رکعت کر کے پڑھی جانی والی ظہر کی سنتِ مؤکدہ الگ الگ بھی ہیں اور مستقل بھی، نیز ہر ایک مقصود لذاتہ بھی ہے، لہذا دو رکعتیں پڑھ کر چار شمار نہیں ہو سکتیں۔

ایک اور مثال: عشا کی نماز کے بعد دو سنت مؤکدہ ہیں، اور ان سنتوں کے بعد وتر ہوتے ہیں، اب تین وتروں کو دو سلام کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، چنانچہ وہ پہلے دو رکعت پڑھتا ہے اور پھر وتر پڑھتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں عشا کی سنت مؤکدہ والی دو رکعتیں وتر کی پہلی دو رکعتوں کی نیت کے ساتھ یک بارگی ہی پڑھتا ہوں اور پھر اس کے بعد ایک وتر پڑھ لوں گا! تو یہ بھی ناجائز ہے؛ کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک مستقل عبادت اور دوسری سے جدا ہے، نیز مقصود لذاتہ بھی ہے؛ اس لیے دونوں کی مشترکہ نیت کے ساتھ ادائیگی نہیں ہو سکتی۔

سوم: اگر دونوں میں سے ایک عبادت غیر مقصود لذاتہ ہے، اس عبادت کا اصل ہدف یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی بھی عبادت کی جائے؛ تو اس صورت میں ایک عبادت کو دونوں کی نیت سے ادا کرنا کافی ہو جائے گا؛ لیکن یہاں پر اصل عبادت فرعی عبادت سے کفایت کرے گی۔

اس کی مثال یوں سمجھیں کہ: ایک شخص فجر کی نماز پڑھنے سے پہلے اور اذان کے بعد مسجد میں داخل ہوا تو ایسے شخص سے شرعی طور پر دو کام مطلوب ہیں: ایک تو تحیۃ المسجد پڑھے اور تحیۃ المسجد غیر مقصود لذاتہ عبادت ہے کیونکہ تحیۃ المسجد کا اصل ہدف یہ ہے کہ آپ دو رکعت نماز پڑھے بغیر مسجد میں نہ بیٹھیں؛ چنانچہ اگر آپ فجر کی سنتیں ادا کر لیتے ہیں تو آپ کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ نماز پڑھ کر ہی بیٹھے ہیں، اس لیے تحیۃ المسجد کا مقصود بھی حاصل ہو گیا۔ لیکن اگر آپ تحیۃ المسجد پڑھنے کی نیت سے دو رکعت پڑھتے ہیں تو اب یہ دو رکعات فجر کی سنتوں سے کافی نہیں ہوں گی؛ کیونکہ فجر کی سنتیں مقصود لذاتہ عبادت ہے، جبکہ تحیۃ المسجد مقصود لذاتہ عبادت نہیں ہے۔

سائل کا یہ کہنا کہ: جب کوئی شخص ظہر کی اذان کے وقت مسجد میں آئے اور دو رکعات پڑھتے ہوئے تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضو اور ظہر کی دو سنتوں کی نیت اکٹھی کر سکتا ہے؟

تو یہاں تحیۃ المسجد اور ظہر کی سنتوں کی نیت تو ٹھیک ہو گی، لیکن تحیۃ الوضو کے بارے میں دیکھنا ہو گا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرے اور پھر دو رکعات اس انداز سے پڑھے کہ وہ دل میں خیالات نہ لے کر آئے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں)؛ تو کیا یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ ہے کہ وضو کے بعد دو رکعتیں پڑھنی ہیں یا پھر کوئی بھی دو رکعتیں مراد ہیں؟

تو ہم دیکھتے ہیں کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ ہے کہ جب بھی وضو کریں تو دو رکعت نماز پڑھیں تو پھر یہ رکعتیں مقصود لذاتہ ہو جائیں گی، اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ وضو کے بعد کوئی سی بھی دو رکعتیں پڑھتا ہے تو مقصود حاصل ہو جائے گا؛ تب ان دو رکعتوں کی جگہ تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد اور ظہر کی سنتوں میں سے دو رکعات بھی کفایت کر جائیں گی اور اس طرح یہ دو رکعات مقصود لذاتہ نہیں ہوں گی۔

مجھے یہ محسوس ہوتا ہے -واللہ اعلم-کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (اور پھر دو رکعات اس انداز سے پڑھے ۔۔۔) سے کوئی مخصوص رکعات مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد کوئی بھی دو رکعتیں ہیں چاہے فرض رکعات ہی کیوں نہ ہوں۔

اس بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ : سائل نے جس مثال کا ذکر کیا ہے اس میں یہ دو رکعات تحیۃ المسجد، سنت مؤکدہ اور تحیۃ الوضو سے کفایت کر جائیں گی۔

ایک اور مثال سے سمجھیں: ایک شخص نے جمعہ کے دن غسل جنابت کیا تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ غسل جمعہ کے دن کے غسل سے کفایت کر جائے گا؟

چنانچہ اگر غسل جنابت کرتے ہوئے غسل جمعہ کی بھی نیت کی تھی تو دونوں ہی ہو جائیں گے؛ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی)؛ لیکن اگر غسل جنابت کی نیت تو کرے تاہم جمعے کی نیت نہ کرے تو کیا پھر بھی جمعہ کا غسل ہو جائے گا؟

یہاں ہم دیکھیں گے کہ غسل جمعہ مقصود لذاتہ ہے یا جمعہ کے دن غسل کے حکم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس دن پاک صاف ہو؟

اصل مقصود یہ ہے کہ انسان پاک صاف ہو؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کتنا ہی اچھا ہو کہ تم اس دن پاک صاف ہو)؛ تو یہاں مقصود واضح ہوا کہ غسل سے مراد جمعہ کے دن پاک صاف ہونا ہے، اور یہ جنابت کے غسل سے بھی حاصل ہو جائے گا، اس بنا پر اگر کوئی انسان جمعہ کے دن غسل جنابت کرے تو اس کا ایک ہی غسل دونوں غسلوں کے لیے کافی ہو گا اگرچہ اس نے دونوں غسلوں کی نیت نہ کی ہو؛ تاہم اگر دونوں کی نیت کر لیتا ہے تو اس میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا" ختم شد

"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (14/299-302)

مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ یہ اصول محل اجتہاد ہے۔ علمائے کرام کے ہاں دلائل ، اصول شریعت، کسی عبادت کے اصل یا فرع ہونے کے اعتبار سے جو بات ان کے ہاں راجح قرار پاتی ہے ؛ اہل علم اس اصول کو وہیں پر لاگو کرتے ہیں۔

چنانچہ فقہائے احناف اس اصول کے بارے میں کہتے ہیں: ایک مشترکہ نیت عبادات کے وسائل میں جائز ہے، یعنی عبادت کی شرائط وغیرہ میں جائز ہے، مثلاً: طہارت نماز کے لیے شرط ہے تو احناف کے ہاں عبادات کے وسائل کی نیت مشترکہ ہو سکتی ہے لہذا رفع جنابت اور غسل یوم جمعہ کے لیے ایک ہی غسل جائز ہے۔

جبکہ مقاصد یعنی بذات خود عبادات میں تداخل یعنی مشترکہ نیت سے انہیں کرنا جائز نہیں ہے، مثلاً: کوئی شخص موجودہ وقت کی نماز اور فوت شدہ نماز کی نیت سے ایک ہی بار چار رکعت نماز پڑھے تو یہ جائز نہیں ہو گا۔

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب ایک ہی جنس کی دو عبادات ایک ہی وقت میں جمع اس طرح ہو جائیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی بطور قضا بجا نہ لائی جا رہی ہو اور نہ ہی ایک عبادت دوسری کے ضمن میں شامل ہو تو ایسی صورت میں دونوں عبادات ایک ہی عمل سے ہو جائیں گی، اس کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: ایک ہی عمل سے دونوں عبادات ہو جائیں، تو ایسی صورت میں مشہور موقف کے مطابق دونوں عبادات کی اکٹھی نیت کرنا شرط ہے۔

 اس کی مثال یہ ہے: جس پر حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں ہیں تو حنبلی فقہی موقف یہ ہے کہ افعال طہارت میں سے حدث اکبر سے پاکیزگی کے افعال کرے تو دونوں کی نیت ہونے پر دونوں طہارتیں حاصل ہو جائیں گی"۔۔۔
اس کے بعد کافی فرعی مثالیں اور احکام ذکر کرنے کے بعد حنبلی فقہ پر اس اصول کے اثرات نقل کیے اور پھر مزید کہا کہ:
"دوسری قسم: دونوں عبادتیں کسی ایک کی نیت کرنے سے بھی حاصل ہو جائیں، اس صورت میں دوسرا عمل کرنے کی اسے ضرورت نہیں ہے، دوسرا عمل ویسے ہی اس سے ساقط ہو جاتا ہے، اس کی بھی کئی مثالیں ہیں:
مثلاً: کوئی شخص مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب جماعت کھڑی تھی اور یہ جماعت میں شامل ہو جائے تو تحیۃ المسجد کی رکعات اس سے ساقط ہو جائیں گی۔۔۔
اسی طرح : جب کوئی عمرہ کرنے والا مکہ مکرمہ آتے ہی عمرے کا طواف شروع کر دے تو اس سے طواف قدوم ساقط ہو جائے گا۔۔۔"
دیکھیں: "قواعد ابن رجب" (1/142) اور اس کے بعد والے صفحات کا مطالعہ کریں۔

مختلف فقہی مذاہب کے فقہائے کرام نے اس اصول میں کون سی عبادت شامل ہیں اور کون سی نہیں ہیں، اس بارے میں متعدد تفصیلات ذکر کی ہیں۔

اس بارے میں آپ مزید تفصیلات جاننے کے لیے انٹرنیٹ پر موجود عربی کتاب: "التداخل وأثره في الأحكام الشرعية" از ڈاکٹر محمد خالد منصور کے صفحہ: 63 اور اس کے بعد کی مباحث پڑھیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب