الحمد للہ.
اول:
تا کہ میت کا دنیا میں آخری جملہ کلمہ شہادت ہو قریب المرگ شخص کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا مسنون عمل ہے ۔
جیسے کہ صحیح مسلم: (916) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے قریب المرگ مُردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو)
اسی طرح صحیح ابن حبان : (3004) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے قریب المرگ مُردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو؛ کیونکہ جس کے آخری کلمات موت کے وقت لا الہ الا اللہ ہوئے تو وہ کسی نہ کسی وقت جنت میں ضرور جائے گا، چاہے اس سے پہلے اسے کچھ نہ کچھ عذاب ہی کیوں نہ ہو)، اس حدیث کو علامہ شعیب ؒ نے ابن حبان کی تحقیق میں صحیح قرار دیا ہے۔
تو اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محض لا الہ الا اللہ پڑھ لینے سے توبہ کی کمی پوری نہیں ہو گی؛ کیونکہ اگر اس نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی تو وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے تحت ہو گا، چنانچہ ممکن ہے کہ وہ موت سے پہلے لا الہ الا اللہ پڑھنے کے باوجود عارضی طور پر جہنم میں جائے، جیسے کہ سابقہ حدیث میں اس چیز کا ذکر موجود ہے۔
چنانچہ مریض اور قریب المرگ شخص کو توبہ کی دعوت دینا مستحب ہے، بشرطیکہ وہ اس دعوت پر عمل کرنے کی حالت میں ہو، اور اسے اس دعوت کا فائدہ بھی ہو، اس دعوت کی وجہ سے وہ تنگ بھی نہ آئے اور اپنے آپ پر گراں بھی نہ سمجھے کیونکہ اگر وہ گراں سمجھے اور اسی سے تنگ آ جائے تو اس کا نقصان بھی بہت زیادہ ہے۔ زندگی کے آخری وقت میں اور خصوصاً حالت نزع میں میت کو ڈرایا نہ جائے، نہ ہی اللہ تعالی کی ملاقات سے اسے متنفر کیا جائے، بلکہ اس کیفیت میں امید کا پہلو غالب کرنا چاہیے، نیز اسے حوصلہ دیں اور اللہ تعالی کی جانب مزید متوجہ ہونے کی ترغیب دیں، ارحم الراحمین سے ملاقات قریب المرگ کے ہاں پسندیدہ بنائیں۔
اسی لیے فقہائے کرام مریض کی عیادت کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ: مریض کو توبہ کی یاد دہانی کروائیں، جبکہ قریب المرگ شخص کو صرف لا الہ الا اللہ پڑھنے کی تلقین کریں اس کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات وقت صرف اتنا ہی ہوتا ہے، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ توبہ کی یاد دہانی بیماری کی حالت میں پہلے ہو چکی ہوتی ہے۔
جیسے کہ اخصر المختصرات، صفحہ: 132 میں ہے کہ:
"موت کی تیاری ، موت کی یاد اور تذکرہ مسنون عمل ہے، ایسے ہی غیر بدعتی مسلمان کی عیادت کرنا اور توبہ و وصیت کی یاد دہانی کرنا بھی مسنون ہے۔ لیکن جب حالت نزع شروع ہو جائے تو پھر اس کے حلق کو پانی یا مشروب کے ذریعے تر رکھنا، ہونٹوں پر پانی لگا کر اسے لا الہ الا اللہ پڑھنے کی ایک بار تلقین کرنا ، زیادہ سے زیادہ تین بار کہنا مسنون ہے، البتہ اگر وہ بات کرے تو پھر انتہائی نرمی کے ساتھ دوبارہ لا الہ الا اللہ پڑھنے کی تلقین کی جائے۔" انتہی
پھر اسی کتاب کی شرح "كشف المخدرات" (1/ 218) میں ہے کہ:
"عیادت کرنے والے کا مریض کو توبہ کی یاد دہانی کروانا مسنون ہے؛ کیونکہ توبہ تو ہر شخص پر واجب ہے کہ انسان ہر وقت اور ہر قسم کے گناہ سے توبہ کرتا رہے؛ کیونکہ ویسے بھی مریض شخص کو توبہ کی دوسروں سے زیادہ ضرورت ہے، اسی طرح اسے وصیت کی یاد دہانی کروانا بھی مسنون ہے، ایسے ہی حق تلفیوں سے معافی تلافی کی بھی ترغیب دی جائے، ان تمام باتوں کی یاد دہانی ایسی بیماری میں بھی مسنون ہے کہ جب حالت خطرے میں نہ ہو۔ عیادت کرتے ہوئے مریض کے جسم پر ہاتھ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم سنت یہ ہے کہ مریض کے پاس زیادہ وقت نہ بیٹھا جائے کہیں مریض تنگ نہ ہو جائے اور مریض جو کرنا چاہیے آسانی سے کر لے۔
چنانچہ جب مریض حالت نزع میں چلا جائے تو پھر مریض کے قریب ترین شخص کی جانب سے مریض کے حلق کو تر رکھنے کی کوشش کی جائے جسے مریض کی دیکھ بھال اور خیال کا تجربہ ہو، اور اللہ تعالی سے ڈرتا ہو۔ حلق تر رکھنے کے لیے پانی، یا مشروب استعمال کیا جائے یا گیلی روئی کے ذریعے ہونٹوں پر قطرے گرائے، تا کہ اسے جس سختی کا سامنا ہے اس کی شدت میں کمی آئے، اور کلمہ شہادت پڑھنا آسان ہو۔ مریض کو لا الہ الا اللہ پڑھنے کی ایک بار تلقین کرے ، اور تین سے زیادہ نہ کرے، ہاں اگر تین بار تلقین کرنے کے بعد بات کرے تو پھر دوبارہ اسے لا الہ الا اللہ کی تلقین کی جائے تا کہ اس کے آخری جملے لا الہ الا اللہ ہی ہوں، یہ تلقین انتہائی نرمی سے کی جائے ؛ ویسے بھی نرمی ہر چیز میں مطلوب ہے، اور یہاں نرمی کی اشد ضرورت ہے۔" انتہی
اس بنا پر: اگر وقت اجازت دے اور مریض شخص ہوش و حواس میں ہو، وہ توبہ بھی کر سکتا ہو تو اسے توبہ کی یاد دہانی کروائی جائے؛ خصوصاً ایسی صورت میں جب وہ شخص شرک و بدعات اور کبیرہ گناہوں میں معروف ہو۔
لیکن اگر وقت اجازت نہ دے کہ وہ شخص حالت نزع میں پہنچ گیا ہے تو پھر لا الہ الا اللہ زبان پر لانے کی کوشش کی جائے۔
واللہ اعلم