سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کئی رمضانوں کے روزے رکھتے ہوئے ترتیب رکھنا ضروری ہے؟

340937

تاریخ اشاعت : 09-05-2022

مشاہدات : 2384

سوال

کیا کئی رمضانوں کی قضا دیتے ہوئے ان کے درمیان ترتیب ملحوظ رکھنا ضروری ہے؟ مثلاً: میں نے 1440 اور 1439 دو سالوں کے روزے رکھنے ہیں تو کیا ان میں ترتیب ضروری ہے؟ اور ان کی تقدیم و تاخیر کی وجہ سے روزے باطل ہو جائیں گے؟

جواب کا خلاصہ

گزشتہ رمضانوں کے روزوں کی قضا دیتے ہوئے ترتیب لازم ہے کا موقف زیادہ محتاط ہے، اس لیے پہلے آپ 1439 کے روزے رکھیں گی، اور پھر 1440 ، اور پھر 1441 کے رمضان کے۔ تاہم اگر کسی شخص کو ترتیب کا علم نہ ہو، یا بھول چکا ہو لیکن فوت شدہ تمام روزوں کی قضا دے دے، تو اس پر بھی کوئی حرج نہیں ہے، اور اس کی قضا بھی صحیح ہے۔ اہمیت کے پیش نظر تفصیلی جواب کا مطالعہ کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

کیا سابقہ رمضانوں کے روزوں کی ترتیب سے قضا دینا ضروری ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اہل علم کے دو موقف ہیں:

پہلا موقف: ترتیب ضروری ہے، یہ موقف حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔

جیسے کہ "كشاف القناع" (2/308) میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص تین سال مسلسل شعبان میں روزے رکھتا رہا، اور پھر اسے علم ہوا کہ وہ تو رمضان کی بجائے شعبان میں روزے رکھتا رہا ہے، تو وہ تین رمضانوں کے روزے فوت ہونے کی وجہ سے تین مہینوں کے روزے بطور قضا رکھے گا، اس میں ترتیب کو بھی ملحوظ رکھے گا ایک ماہ کے بعد دوسرے ماہ کے، بالکل ایسے ہی جیسے فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی میں ترتیب واجب ہے ایسے ہی فوت شدہ رمضانوں کی قضا میں بھی ترتیب واجب ہے۔" ختم شد

دوسرا موقف: ترتیب واجب نہیں ہے، احناف کے ہاں یہی موقف پسندیدہ ہے، یہی موقف مالکی فقہائے کرام کا ہے۔

جیسے کہ "تبيين الحقائق"(6/ 220) میں ہے کہ:
"اگر کسی پر ایک ہی رمضان کے دو روزوں کی قضا واجب ہو جائے اور قضا دیتے ہوئے دن کی تعیین نہ کرے تو جائز ہے۔ اسی طرح اگر دو مختلف رمضانوں کے روزے ہوں تب بھی مختار موقف کے مطابق کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اگر صرف قضا کی نیت کرے اور مزید کچھ بھی نیت میں واضح نہ کرے تو تب بھی جائز ہے۔ انتہی۔ فتح القدیر" ختم شد

اسی طرح "منح الجليل"(2/ 124)میں ہے کہ:
"اگر کسی پر دو رمضانوں کی قضا ہو تو وہ پہلے رمضان سے آغاز کرے، تاہم اگر ترتیب الٹ بھی ہو جائے تو کفایت کر جائے گا۔" ختم شد

دائمی فتوی کمیٹی کی جانب سے ترتیب کے واجب ہونے کا فتوی دیا گیا ہے، کمیٹی کے سامنے سوال رکھا گیا:
"میری والدہ 9 سال سے گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں، ان میں ماہ رمضان بھی گزرے ہیں، اور اس دوران ان کے گردے بھی واش ہوتے رہے ہیں، اب میری والدہ ہفتے میں 3 دن : ہفتہ، سوموار، اور بدھ کو گردے واش کروانے جاتی ہیں، گردے واش کرتے ہوئے سرنج کے ذریعے پائپ استعمال کیے جاتے ہیں اور ان سے روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے، میری والدہ نے سابقہ گزرے ہوئے رمضانوں میں گردے واش کروانے کی وجہ سے ٹوٹنے والے روزوں میں سے کوئی بھی روزہ نہیں رکھا، چنانچہ رمضان کے گزرنے کے بعد وہ روزوں کا فدیہ دے دیا کرتی تھیں ان دنوں کا روزہ نہیں رکھتی تھیں؛ کیونکہ انہیں ہر ہفتے میں 3 دن اسپتال جانا پڑتا تھا، تو اب میری والدہ کیا کریں؟ اب تو 9 رمضان گزر چکے ہیں، کیا انہیں گناہ ہو گا؟ کیونکہ انہوں نے روزے نہیں رکھے بلکہ صرف کھانا کھلایا ہے۔ ہمیں اس بارے میں فتوی دیں، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

جواب: اگر معاملہ ایسے ہی ہے جس طرح ذکر کیا گیا ہے تو پھر گزرے ہوئے تمام رمضانوں کے روزے ان پر رکھنا واجب ہے، اور قضا دیتے ہوئے ترتیب ملحوظ رکھنا ہو گی، اس لیے آغاز میں پہلے رمضان کے روزوں کی قضا دے پھر دوسرے اور ترتیب کے ساتھ آخر تک ، مزید برآں ہر روزے کی قضا کی تاخیر کی وجہ سے ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائے، جس کی مقدار ڈیڑھ کلو گندم، چاول یا کھجور وغیرہ کوئی بھی ایسی چیز جو علاقے کی بنیادی غذا ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان عام ہے:
 وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ 
 ترجمہ: اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو دیگر ایام میں تعداد پوری کرے۔ [البقرۃ: 184]

اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی ال اور صحابہ کرام پر
بکر ابو زید      صالح الفوزان    عبد اللہ بن غدیان عبدالعزیز بن عبد اللہ آل الشیخ" ختم شد
فتاوی دائمی کمیٹی، دوسرا ایڈیشن (9/ 105)

گردے فیل ہونے کی وجہ سے روزوں کے متعلق احکامات جاننے کے لیے سوال نمبر: (49987 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

گزشتہ رمضانوں کے روزوں کی قضا دیتے ہوئے ترتیب لازم ہے کا موقف زیادہ محتاط ہے، اس لیے پہلے آپ 1439 کے روزے رکھیں گی، اور پھر 1440 ، اور پھر 1441 کے رمضان کی۔ تاہم اگر کسی شخص کو ترتیب کا علم نہ ہو، یا بھول چکا ہو لیکن فوت شدہ تمام روزوں کی قضا دے دے، تو اس پر بھی کوئی حرج نہیں ہے، اور اس کی قضا بھی صحیح ہے۔
اور اگر کسی کے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا ہو لیکن قضا سے پہلے اگلا رمضان بھی آ جائے ، تاخیر قضا کا کوئی عذر بھی نہ ہو تو جمہور علمائے کرام کے مطابق اس پر اب قضا کے ساتھ فدیہ دینا بھی لازم ہے، جو کہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے، تاہم قضا ایک سے زیادہ رمضان مؤخر ہو جائے تو فدیہ ڈبل نہیں ہو گا۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (26865 ) اور (95736 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب