الحمد للہ.
لجنہ دائمہ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :
کیا گردے واش کرنے سے روزپر کچھ اثر پڑتا ہے ؟
کمیٹی کا جواب تھا :
ہاسپٹل کنگ فیصل خصوصی اور ملٹری کمپائڈ ہاسپٹل ریاض کے میڈیکل سپرنڈنٹ صاحبان کی طرف لکھا گيا کہ وہ گردے واش کرنے یعنی گردے دھونے کی کیفیت اور اس استعمال ہونے والے مخلوط کیمائي مواد کے بارہ میں معلومات دیں کہ آيا اس میں کوئي غذائی مواد بھی پایا جاتا ہے کہ نہيں ؟
توان کے جواب کے مضمون کوذيل میں دیا جاتا ہے :
گردے واش کرنے کے لیے مریض کا سارا خون ایک آلے میں منتقل کیا جاتا ہے تواسے صاف کرتا ہے اورپھر اس خون کو دوبارہ مریض کے جسم میں داخل کردیا جاتا ہے اوراس خون میں بعض کیمائي مواد کا بھی اضافہ کیا جاتا ہے مثلا نمکیات اورشوگریات وغیرہ ۔
فتوی کمیٹی نے بحث وتمحیث اورتجربہ کار لوگوں کے ذریعہ گردے واش کرنے کی حقیقت معلوم کرنے کے بعدیہ فتوی دیا ہے کہ مذکورہ گردے واش کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 190 ) ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ اھـ
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :
کیا گرے واش کروانے والے شخص کا خون نکلنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟ اوروہ شخص اس دوران اگر نماز کا وقت ہوتونماز کس طرح ادا کرے گا اور رزے کس طرح رکھے گا ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
وضوء ٹوٹنے کے بارہ میں تویہ ہے کہ اس سے وضوء نہيں ٹوٹے گا اس لیے کہ علماء کرام کا راجح قول یہی ہے کہ سبیلین کے علاوہ بدن سے خارج ہونے والی چيز سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، لھذا پیشاب وپاخانہ والی جگہوں سے خارج ہونا وضوء توڑ دیتا ہے چاہے وہ پیشاب ہویا پاخانہ یا ہوا ، ان دو راستوں سے ہرنکلنے والی چيز سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ۔
لیکن جوسبیلین کے علاوہ کسی اورجگہ سے نکلے مثلا نکسیر جوناک سے نکلتی ہے یا پھر زخم سے نکلنے والا خون یااس کے مشابہ کچھ اور تواس سے وضوء نہيں ٹوٹتا چاہے وہ کم مقدار میں ہویا زيادہ مقدار میں ، تواس بنا پر گردے واش کرنے سے وضوء نہيں ٹوٹے گا ۔
اورنماز کےبارہ میں ہم یہ کہیں گے کہ مريض شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ ظہر اورعصر ، اورمغرب اورعشاء کی نمازیں جمع کرکے ادا کرے ، اوراسے چاہيے کہ وہ بلاواسطہ ڈاکٹر سے رابطہ کر کے وقت متعین کرے اس لیے کہ گردوں کی صفائي کے لیے نصف دن سے زيادہ صرف نہيں ہوتا تاکہ اس کی ظہر اورعصر کی نماز ضائع نہ ہو ۔
لھذا اسے یہ کہنا چاہیے کہ وہ گردے زوال سے کچھ دیر بعد دھوئے تا کہ ظہر اورعصر کی نماز ادا کر لی جائے ، یا پھراس سے بھی پہلے صفائي کرلے تا کہ عصر سے پہلے پہلے فارغ ہوکر نماز ادا کرلی جائے ، اہم یہ ہے کہ نماز کو وقت سے لیٹ کیے بغیر جمع کیا جاسکتا ہے ، تواس لیے ڈاکٹر سے بلاواسطہ وقت کی تعیین کرنی چاہیے ۔
اور رہا مسئلہ روزے کے بارہ میں تومجھے اس میں تردد ہے ، بعض اوقات تومیں یہ کہتا ہوں کہ یہ سنگی اورپچھنے لگوانے کی طرح نہيں ، سنگی اورپچھنے لگوانے میں تو خون نکلتا ہے اورواپس بدن میں نہيں جاتا اورایسا کرنا روزے کوفاسد کردیتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی ہے ۔
اورگردے واش کرنے میں تو خون بدن سے نکال کرصاف کیا جاتا اوردوبارہ بدن میں لوٹایا جاتا ہے ، لیکن مجھے خدشہ ہے کہ کہیں اس واش کرنے میں کوئي ایسا مواد شامل نہ ہوجومغذی اورکھانے پینے سے مستغنی کرتا ہو ۔
اگر تو واقعی معاملہ ایسا ہی ہے تواس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، اورجب کوئي شخص اس مرض کا ہمیشہ شکار ہو تووہ اسی طرح ہوگا جس کی شفایابی کی کوئي امید نہيں لھذا وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کوکھانا کھلائے ۔
لیکن اگر یہ بیماری اسے کبھی کبھار ہوتی ہو تواسے گردے واش کرواتے وقت روزہ نہيں رکھنا چاہیے بلکہ بعد میں اسے اس کی قضاء ادا کرنا ہوگي ۔
لیکن اگرگردے صاف کرتے وقت خون میں شامل کیا جانے والا مواد بدن کےلیے مغذی نہ ہو بلکہ صرف خون کوصاف کرتا ہو تواس سے روزہ نہيں ٹوٹے گا ، تواس وقت اسے اس استعمال کرنے میں کوئي حرج نہیں چاہے وہ روزہ کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو ، اوراس معاملہ میں ڈاکٹروں سے رجوع کیا جائے گا ۔
دیکھیں : فتاوی ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 20 / 113 ) ۔
اورجواب کاخلاصہ یہ ہے کہ :
گردے فیل ہونے والا شخص گردے واش کرنے والے ایام میں روزہ نہيں رکھے گا ، پھر اگر تووہ بعد میں قضاء کرسکے تواسے قضاء کرنا ہوگي ، لیکن اگر وہ قضاء نہ کرسکتا ہو تووہ بھی بوڑھے شخص کی طرح ہے جوروزہ نہ رکھ سکتا ہو لھذا وہ روزہ نہيں رکھے گا بلکہ اس کے بدلے ہردن ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا ۔
واللہ تعالی اعلم .