اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بیوہ یا مطلقہ کو ملنے والی امداد جاری رکھنے کے لیے نکاح کا اندراج نہ کروانے کا حکم

349351

تاریخ اشاعت : 06-09-2021

مشاہدات : 3754

سوال

میرے خاوند کو فوت ہوئے 2 سال ہو گئے ہیں، میری دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں، میری والدہ اور والد بھی فوت ہو چکے ہیں، مجھے حکومت کی جانب سے اچھی امدادی رقم ملتی ہے، لیکن میری بیٹیوں کو باپ کی جگہ پوری کرنے کے لیے مرد کی ضرورت ہے  جو ان کی زندگی میں ان کا خیال رکھے، اور ساتھ میں بھی  ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھوں گی، میں نہیں چاہتی کہ ان کا معیار زندگی کم ہو یا انہیں کسی بھی چیز سے محروم کروں۔ بات یہ ہے کہ مجھ سے شادی کے لیے بہت سے افراد نے پیغامِ نکاح بھیجا  تھا، لیکن مجھے اور میری بیٹیوں کو اس میں سکون نظر نہیں آیا، مجھے جس نے بھی شادی کا پیغام بھیجا وہ سب کے سب ہی میرے اخراجات تو اٹھانے کے لیے تیار ہیں لیکن میری بیٹیوں کی تعلیم کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں،  ابھی کچھ دن پہلے ایک اچھے شخص نے منگنی کا پیغام بھیجا ہے، وہ شادی شدہ ہے اور اس کی بھی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں، اس کی بیوی اور بچیاں دوسرے شہر میں ہیں، جبکہ میں اور میری بیٹیاں الگ شہر میں ہیں، میرا دل اس کی طرف مائل بھی ہے، مجھے خاوند کی صورت میں مرد کی ضرورت بھی ہے ، اس کے بارے میں میں اور میری بیٹیاں مطمئن ہیں، امید ہے کہ وہ ہماری پریشانیوں کا مداوا کر سکے گا،  لیکن اس کے مالی حالات بھی کچھ ایسے ہیں کہ دو گھروں کا خرچہ بہ مشکل پورا کر سکے گا، تو اب سوال یہ ہے کہ کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں نکاح کے تمام شرعی تقاضوں کو پورا تو کر لوں لیکن بیوہ اور یتیم بچیوں کو ملنی والی امدادی رقم جاری رکھنے کے لیے اپنی شادی کا اندراج نہ کرواؤں ؟ اس طرح مجھے اور میری بچیوں کے لیے خرچہ ملتا رہے گا اور میں اپنی بچیوں کا پورا خیال رکھ سکوں گی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

حصول پنشن  کے لیے غیر قانونی طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں

حکومت سے پنشن حاصل کرنے کے لیے جو شرائط مقرر کی جاتی ہیں ان شرائط پر پابند رہنا لازم ہے، ان سے بچنے کے لیے کوئی بھی غیر قانونی طریقہ استعمال کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں خیانت، دھوکا دہی، اور باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے کا گناہ  ہے۔

چنانچہ اگر پنشن صرف بیوہ یا مطلقہ کو ہی دی جاتی ہے، اور شادی کرنے کی صورت میں اسے روک دیا جاتا ہے تو پھر اسے حاصل کرنے کے لیے نکاح رجسٹر ہی نہ کروائیں ، یہ غلط عمل ہے؛ کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، جن میں سے چند اہم ترین درج ذیل ہیں:

  1. مال عامہ کو باطل طریقے سے ہڑپ کرنا، کیونکہ حکومت صرف بیوہ کو ہی پنشن دیتی ہے،  شادی شدہ خاتون کی ذمہ داری بھی اٹھائے یہ حکومت پر اضافی بوجھ  ہے، اگر کوئی شادی شدہ خاتون بھی مال عامہ میں سے  پنشن ناحق وصول کرتی ہے تو یہ حرام  مال ہے چاہے وہ خود کھائے یا  بچوں کو کھلائے۔ فرمانِ باری تعالی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ  ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے اموال آپس میں باطل طریقے سے ہڑپ مت کرو، ہاں اگر باہمی رضا مندی سے تجارت ہو تو ٹھیک ہے۔[النساء: 29]   اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مسلمان اپنی شرائط پر قائم رہیں) اس حدیث کو امام ابوداودؒ: (3594) نے روایت کیا ہے اور صحیح ابو داود میں البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
    اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (فریب دینا اور دھوکا دہی جہنم میں لے جانے والے اعمال ہیں) اس حدیث کو بیہقی ؒ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے صحیح الجامع: (6725) میں صحیح قرار دیا ہے۔ جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس  روایت کو معلق  بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: (دھوکا دہی آگ میں لے جانے والی ہے، جو بھی کوئی ایسا عمل کرے جو ہمارے دین میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔)
  2. اگر آپ نکاح رجسٹر نہیں کروائیں گی تو اس سے آپ اپنا حق بھی ضائع کریں گی اور اپنے خاوند کا بھی بلکہ اپنے ہونے والے بچوں کا بھی؛ کیونکہ اگر یہ خاوند فوت ہو گیا تو بیوی اور بچے اس خاوند کے وارث نہیں بن سکیں گے، اسی طرح خاوند بھی آپ کا اور اپنے ان بچوں کا وارث نہیں بن سکے گا، اولاد ہونے کی صورت میں اس کا اندراج بھی نہیں ہو گا، اور اسکول  وغیرہ میں داخلہ بھی نہیں ہو سکے گا۔ اسی طرح کے دیگر بہت سے نقصانات ہیں۔

پھر جہاں ذمہ داریوں میں خلل پیدا ہو رہا ہے: یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس آدمی کی بھی آپ سے نہ بنے اور آپ کو بھی چھوڑ دے  اور آپ کے بیوی ہونے کا اعتراف ہی نہ کرے   آپ کو معلق رکھنے کے لیے  طلاق بھی نہ دے، یہی چیز عورت کی طرف سے بھی پیش آ سکتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کو خاوند ہی تسلیم نہ کرے اور اسے حق زوجیت سے محروم رکھے۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آپ اس غیر قانونی راستے کو صرف پنشن کے لیے اپنانا چاہتی ہیں، اور یہ پنشن ہی آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔

آپ نے ذکر کیا کہ آپ کے ہونے والے خاوند کی آمدن اتنی نہیں ہے کہ آپ کے بچوں کے اخراجات پورے ہو سکیں، تو یہ کوئی ایسا عذر نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ اپنے بچوں کو حرام ہی کھلانا شروع کر دیں۔

اس لیے اللہ تعالی سے ڈریں اور  اللہ کی پکڑ  کا خوف کھائیں، لہذا آپ  یا تو شادی نہ کریں اس طرح پنشن جاری رہے گی، اور یا پھر آپ شادی کر لیں -ہم مشورہ بھی ہی یہی دیں گے کہ آپ لازمی طور پر شادی کر لیں- اور اپنے اخراجات کو کم کریں تا کہ انہیں ملنے والا خرچہ پورا ہو سکے، ساتھ میں آپ بھی ان کی اعانت کریں، چاہے گھر میں کام کاج کرنے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، نیز ہم اللہ تعالی  سے دعا گو ہیں کہ آپ کا معاملہ آسان فرمائے، اور  آپ کو ڈھیروں فضل سے نوازے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب