الحمد للہ.
امتحانات میں نقل مارنا حرام ہے
امتحانات وغیرہ میں [اپنی محنت کے ساتھ دوسروں کی محنت کی ملاوٹ کرتے ہوئے] نقل مارنا حرام ہے، جیسے کہ صحیح مسلم: (102) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو ملاوٹ کرے تو وہ مجھ سے نہیں)
سالانہ امتحانات کو حل کروانا یا حل کروانے میں مدد پیش کرنا ملک کو دھوکا دہی کے مترادف ہے؛ کیونکہ یہاں ایسا طالب علم بھی تعلیمی سند حاصل کر لے گا جو اس کا اہل نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو پورے معاشرے کے ساتھ دھوکا دہی ہے؛ کیونکہ نقل خوری کی وجہ سے طلبہ کی علمی صلاحیت بہت کمزور ہو گی اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا نہیں سکیں گے۔
ماہانہ ٹیسٹ اور ذمیہ کام میں نقل خوری کا حکم
ذمیہ کام ، ماہانہ ٹیسٹ اور کلاس میں لیے جانے والے مختصر ٹیسٹ میں نقل خوری طلبہ کے سرپرستوں اور تعلیمی نگرانی پر مامور افراد کے ساتھ دھوکا ہے؛ کیونکہ یہ ٹیسٹ طلبہ کو فائنل امتحانات کے لیے تیاری کا موقع فراہم کرتے ہیں، اور تمام کتب کو اچھی طرح تیار کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
تو نقل خوری کی صورت میں تعلیم اور ذمیہ کام کے اصل اہداف کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟!
اسی طرح اگر طلبہ نے خود کوئی کام کرنا ہی نہیں ہے تو ان کی تعلیمی اساس اور بنیاد کیسے مضبوط ہو گی؟!
اور اگر ان ماہانہ ٹیسٹوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو پھر تعلیمی نظام میں انہیں شامل کیوں کیا گیا ہے؟!
اس بنا پر آپ کا طلبہ کی جگہ پر تعلیمی ذمیہ کام کر کے دینا ممنوع عمل ہے، بلکہ یہ دھوکا دہی میں شامل ہے جو کہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (95893 ) اور (104812 ) کا مطالعہ لازمی کریں۔
واللہ اعلم