جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

طلبہ کے لیے اسائنمنٹ ، مشقیں اور مقالات لکھ کر فروخت کرنے کا حکم

سوال

طلبہ کے لیے مقالات کاپی پیسٹ کر کے ایسے طلبہ کو فروخت کرنا جن کے اساتذہ کو انٹرنیٹ سے استفادہ نہیں کرنا آتا یا ان کے ہاں انٹرنیٹ کی سہولت ہی موجود نہیں ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر اس مقالے کے بعد طلبہ کو تعلیمی اسناد جاری ہوں گی، یا اس کے گریڈ میں اضافہ ہو گا، یا اس کی وجہ سے کوئی امتحان نہ دینے کی چھوٹ مل جائے گی تو یہ عمل حرام ہے۔ یہ دھوکا دہی اور خیانت ہے۔ نیز یہ مقالات انٹرنیٹ سے لیے گئے ہوں یا کہیں اور سے انہیں حاصل کیا گیا ہو ان کا حکم یہی رہے گا؛ کیونکہ مقالہ تحریر کرنے کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ طالب علم کو مقالات لکھنے کا ڈھنگ آئے، اور اس کی صلاحیتوں کو پرکھا جائے، اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ خود ہی یہ کام کریں، لیکن اگر وہ کسی کی محنت اٹھا کر خود اپنے نام سے پیش کر دے تو ایسا شخص دھوکے باز اور جھوٹا ہو گا۔

دوسری طرف طلبہ کے لیے مقالات اور تحریریں لکھنے والے لوگ بھی گناہ گار، خطا کار اور تخریب کار ہیں، چاہے معاوضہ لے کر لکھ کر دیں یا بغیر معاوضے کے لکھیں؛ کیونکہ یہ لوگ بھی دھوکا دہی اور جھوٹ میں معاونت پیش کر رہے ہیں، یہ ایسے لوگوں کو تعلیمی اسناد جاری کروانے میں معاون ہیں جو تعلیمی اسناد کے اہل نہیں ہیں، ایسے میں غیر مستحق لوگوں کو نمبر دیے جائیں گے، اس میں عوامی سطح پر بد عنوانی اور پوری قوم کے ساتھ دھوکا دہی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسا شخص آگے آ جائے گا جو آگے آنے کا حقدار نہیں ہے، ایسے شخص کو ذمہ داری سونپ دی جائے گی جو کہ نااہل ہے۔

ان مقالات کی فروختگی سے جو مال حاصل ہو گا وہ بھی حرام ہے، اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر وہ جسم جو آگ سے پرورش پایا ہے تو وہ آگ کا زیادہ حقدار ہے۔) اسے روایت کو طبرانی اور ابو نعیم نے نقل کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح الجامع میں: (4519) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
آپ ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو کسی کو مقالات لکھنے کے لیے اجرت پر رکھ لیتے ہیں، اور ان کے علمی مقالات تیار کرتے ہیں یا کتابوں کی تحقیق کرتے ہیں جسے جامعہ میں جمع کروا کر انہیں اعلی درجے کی تعلیمی اسناد جاری کی جاتی ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا: "یہ تو بہت ہی افسوس کی بات ہے -جیسے کہ سائل نے ذکر کیا ہے- کہ کچھ لوگ رقم دے کر کسی سے اپنے مقالات اور تحقیقی آرٹیکل لکھوا لیتے ہیں اور پھر انہی کی بدولت اعلی تعلیمی اسناد حاصل کرتے ہیں، یا پھر کسی کتاب کی تحقیق کے لیے کسی کو کہہ دیتے ہیں کہ ان راویوں کے حالات زندگی تلاش کرو، اور فلاں آرٹیکل سے استفادہ کر کے یہ مقالہ تیار کر دو۔ تیار ہونے پر اسے بطور تحقیقی مقالہ پیش کر دیتا ہے اور اپنے آپ کو اساتذہ کی صف میں شامل کروا لیتا ہے، یہ طریقہ کار یونیورسٹی کے ہدف اور حقائق سے بالکل متصادم ہے۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ بھی خیانت کی ایک شکل ہے؛ کیونکہ یہاں ہدف صرف ڈگری لینا ہی نہیں ہے؛ کیونکہ ایسے شخص سے چند دن کے بعد اس کے رسالے کے بارے میں پوچھا جائے تو اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کیا لکھا تھا۔

اس لیے میں اپنے محقق بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس انداز سے کتب کی تحقیق اور تصنیف نہ کریں؛ کیونکہ اس کے نتائج بہت بھیانک ہیں۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ کسی سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مدد اتنی بھی نہ ہو کہ سارا مقالہ ہی کسی دوسرے کا لکھا ہوا ہو۔ اللہ تعالی سب کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق دے، بیشک اللہ تعالی سننے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: "کتاب العلم"

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب