الحمد للہ.
اول:
دایہ کا کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے یہ معاوضہ لے کر کیا جائے یا بغیر معاوضے کے کریں، یہ کام مسلمانوں کے لیے بہت ہی مفید ہے، اس لیے اگر یہ کام کرتے ہوئے کسی کی نیت اچھی ہے تو اس کے لیے اجر کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔
دوم:
کسی ہسپتال میں اتنے عرصے کے لیے کام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جس سے آپ دایہ بننے کی اہل بن جائیں، نیز آپ نے اسپتال میں نماز اور حجاب کا ذکر کیا تو یہ ایک اچھا معاملہ ہے۔
جبکہ وردی کے بارے میں یہ ہے کہ آپ اپنے گھر سے مکمل حجاب اور پردے میں نکلیں، اور اسپتال پہنچ کر آپ اپنی وردی پہن لیں۔
جبکہ دونوں بازوؤں کو مکمل یا جزوی طور پر اجنبی مردوں کی موجودگی میں کھولنا جائز نہیں ہے، اس لیے آپ اجنبی مردوں کی موجودگی میں بازو ڈھانپ کر رکھنے کی کوشش کریں، اس کے لیے آپ طبی دستانے دہرے کر کے یا اسی طرح کی اور کوئی بھی چیز پہن سکتی ہیں تا کہ آپ کے بازو عیاں نہ ہوں۔
فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کا سارا بدن ہی ستر ہے، صرف چہرے اور ہاتھوں کے بارے میں اختلاف ہے، ہتھیلی سے اوپر والا حصہ متفقہ طور پر ڈھانپا جائے گا۔
تاہم دونوں ہتھیلیوں کے بارے میں بھی راجح یہی ہے کہ انہیں بھی ڈھانپا جائے گا۔
اور اگر اجنبی لوگ نہیں ہیں تو پھر اپنے بازو کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم