الحمد للہ.
اصل تویہی ہے کہ حج کے اخراجات جتنامال صدقہ کرنے سے نفلی حج کی ادائيگي افضل اوربہتر ہے ، لیکن بعض اوقات ایسے اسباب پیدا ہوسکتے ہيں جوصدقہ کونفلی حج کی ادائيگي سے افضل کردیتے ہيں ، مثلا : اگرجھاد فی سبیل اللہ میں صدقہ کرنا یا پھردعوت وتبلیغ کے لیے ، یا کسی ایسی قوم پرصدقہ کرنا جواضطراری حالت میں ہوں اورخاص کرجب وہ اس کے اقرباء ورشتہ دارہوں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
شرعی طریقہ پرحج کرنا اس صدقہ سے افضل ہے جوواجب نہيں ، لیکن اگر اس کے اقرباء ورشتہ دار محتاج ہوں توان پرصدقہ کرنا افضل ہوگا ، اوراسی طرح اگرکوئي قوم اس کے نفقہ کے محتاج ہوں ، لیکن اگردونوں ہی نفلی ہوں تواس حالت میں نفلی حج افضل ہوگا کیونکہ یہ بدنی اورمالی عبادت ہے ، اوراسی طرح قربانی اورعقیقہ کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے ، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ : وہ راستے میں واجب پرعمل کرے اورحرام کردہ سے اجتناب کرے ، اورنماز پنجگانہ کی ادائيگي کرے ، اوربات چیت میں سچ بولے اورامانت کی ادائيگي کرے اورکسی دوسرے پرظلم وستم نہ کرے ۔ اھـ
دیکھیں : الاختیارات صفحہ نمبر ( 206 ) ۔
اورشیخ ابن بازرحمہ اللہ تعالی کاکہناہے کہ :
جوشخص بھی اپنے قصد کواللہ تعالی کے لیے خالص کرے اوریہ عبادت شرعی طریقہ پربجالائے تواس کا حج وعمرہ کرنا اس کے اخراجات کا صدقہ کرنے سے افضل ہے ، صحیح راویت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ:
( عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے ، اورحج مبرور کا اجرجنت کےعلاوہ کچھ نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1773 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1349 ) ۔
اورایک دوسری راویت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمايا :
( رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1782 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1256 ) ۔ اھـ
اورایک جگہ پران کا کہنا ہے :
جس نے فريضہ حج کی ادائيگي کرلی ہوتواس کے لیے افضل اوربہتر یہ ہے کہ وہ دوسرے حج کا خرچہ اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنے والوں کے لیے صدقہ کردیا جائے کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے بہتر ہے توآپ نے فرمایا :
( اللہ تعالی اور اس کےرسول پرایمان لانا ، آپ سے کیا گيا اس کے بعد کونسا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی کے راستے میں جھادکرنا ، آپ سےکہا گيا کہ اس کے بعدکونسا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حج مبرور ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 26 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 83 ) ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کوجھاد کے بعد رکھا ہے ، اوراس حج سے نفلی حج مراد ہے کیونکہ فرضی حج تواستطاعت ہونے کی صورت میں دین اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔
اورصحیحین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :
( جس کسی نے بھی کسی غازی کوتیارکیا گویا کہ اس نے بھی جھاد کیا ، اورجس نے اس کے اہل وعیال میں خيرکے ساتھ دیکھ بھال کی اس نے بھی جھاد کیا ) ۔
اوراس میں کوئي شک وشبہ والی بات نہيں کہ اللہ تعالی کے راستے میں جھادکرنے والے مالی تعاون کے زيادہ اورشدت کے محتاج ہیں ، اوران میں اپنا مال خرچ کرنا مندرجہ بالااوردوسری احاديث کی روشنی میں نفل میں خرچ کرنے سے افضل اوربہتر ہے ۔ اھـ
اورشیخ ابن بازرحمہ اللہ تعالی کا یہ بھی کہنا ہے :
جس شخص نے فریضہ حج اورعمرہ کی ادائيگي کرلی ہواس کے بہتراورافضل یہ ہے کہ وہ نفلی حج وعمرہ کے اخراجات اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنےوالوں کےتعاون میں ادا کرے ، کیونکہ شرعی جھاد نفلی حج اورعمرہ سے بہتر اورافضل ہے ۔ اھـ
شیخ ابن بازرحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گيا :
کیا مسجدبنانے کے لیے چندہ دینا افضل ہےیا اپنے والدین کی جانب سےحج کی ادائيگي کرنا ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
جب مسجد کی تعمیرانتہائي ضروری ہوتونفلی حج کے اخراجات اس مسجد کی تعمیرپرخرچ کرنے افضل اوربہتر ہیں کیونکہ اس کا فائدہ زيادہ اورہمیشگی والا ہے اوراس میں نمازکی ادائيگي میں مسلمانوں کا تعاون بھی ہے ۔
لیکن اگر مسجدکی تعمیر میں وہ خرچہ – یعنی نفلی حج کے اخراجات – صرف کرنا انتہائي ضروری نہ ہوں وہ اس طرح کہ حج والے کے علاوہ کوئي اوربھی اس تعمیر کے اخراجات برداشت کرنے والا ہو اوروہ خود یا کوئي ثقہ آدمی اس کے والدین کی جانب سے حج بھی نفلی کرنا چاہتا ہو توان شاء اللہ افضل اوربہتر یہی ہے کہ حج کرے ، لیکن یہ دونوں کی جانب سے ایک ہی حج میں جمع نہيں ہوسکتے بلکہ ہرایک کی جانب سے علیحدہ علیحدہ حج کرنا ہوگا ۔ اھـ
دیکھیں : مجموع فتاوی الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 16 / 368 - 372 ) ۔
اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہمارے خیال میں نفلی حج میں اخراجات کرنے سے جھاد فی سبیل اللہ میں خرج کرنا زيادہ بہتر اورافضل ہے ، کیونکہ نفلی جھاد نفلی حج سے افضل ہے ۔ اھـ کچھ کمی وبشی کے ساتھ ۔
دیکھیں فتاوی ابن عثیمین ( 2 / 677 ) ۔
واللہ اعلم .