الحمد للہ.
اول:
حرام کام کے لیے معاونت کرنے کا حکم
ایسے انگوروں کے باغ میں کام کرنا جائز نہیں ہے جن سے شراب بنائی جائے گی، انہیں فروخت کرنا یا ان کی پیکنگ کرنا وغیرہ ہر قسم کا کام جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح ام الخبائث گناہ کے لیے معاونت ہوتی ہے، ایسی ملازمت سے حاصل ہونے والا مال بھی حرام ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْأِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو، تقوی الہی اپناؤ ؛ یقیناً اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدۃ: 2]
اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب کے متعلق دس لوگوں پر لعنت فرمائی ہے: شراب بنانے والا، شراب بنوانے والا، شراب نوش کرنے والا، اسے اٹھانے والا، جس کی طرف اٹھا کر لی جائے، شراب کے ساقی پر، شراب فروخت کنندہ پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، شراب خریدنے والے پر، اور جس کے لیے شراب خریدی جائے۔)اس حدیث کو ترمذی: (1295) اور ابو داود: (3674)نے روایت کیا ہے۔
دوم:
کیا گناہ کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
فقہائے کرام کا رمضان میں عمداً گناہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟
تو جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ روزہ صرف مشہور روزہ توڑنے والی چیزوں سے ٹوٹتا ہے، مثلاً: کھانا، پینا اور جماع کرنا، لہذا غیبت، جھوٹ، اور کسی بھی حرام کام جیسے دیگر گناہوں سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس سے روزے کا اجر کم ہو جائے گا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ روزہ قبول ہی نہ ہو۔
جبکہ ابن حزم رحمہ اللہ گناہ کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جانے کے قائل ہیں، ان کی دلیل صحیح بخاری: (6057) کی روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص خلاف شریعت بات اور اس پر عمل ترک نہ کرے اور جہالت والے کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا ترک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔)
اسی طرح مسند احمد: (8856) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کتنے ہی روزے دار ہیں جنہیں روزے میں صرف بھوک اور پیاس ملتی ہے، اور کتنے قیام کرنے والوں کو قیام سے صرف بیداری ملتی ہے۔)مسند احمد کی تحقیق میں شعیب الارناؤط نے کہا ہے کہ اس کی سند جید ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: "المُحلى" (4/ 304)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (37877 ) اور (50063 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس مسئلے میں صحیح موقف جمہور کا موقف ہے، لیکن جس شخص کا کھانا، پینا حرام کا ہو تو اس کے بارے میں خدشہ ہے کہ اس کے روزے، دعائیں اور نمازیں قبول ہی نہ ہوں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اے لو گو !اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک کے سوا کچھ قبول نہیں کرتا، اللہ تعالی نے مو منوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا :" يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ اے پیغمبرو! پا ک چیزیں کھا ؤ اور نیک کا م کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جاننے والا ہوں ۔ [المؤمنون: 51]اور فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ اے مومنو! جو پا ک رزق ہم نے تمھیں عنایت فرما یا ہے اس میں سے کھا ؤ ۔[البقرة: 172] پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کا ذکر کیا : جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے ۔ دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہا تھ پھیلا کر کہتا ہے: اے میرے رب اے میرے رب! جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرا م کا ہے، اور اس کو غذا حرا م کی ملی ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہو !!) اس حدیث کو امام مسلم: (1015) نے روایت کیا ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں اشارہ ہے کہ کوئی بھی عمل نہ تو قبول ہوتا ہے اور نہ ہی معیاری ہوتا ہے جب تک کھانا حلال نہ ہو، اور حرام کھانے سے انسانی اعمال کالعدم ہو جاتے ہیں اور قبول بھی نہیں کیے جاتے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فیصلے کے بعد فرمایا: (اے لو گو !اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک کے سوا کچھ قبول نہیں کرتا، اللہ تعالی نے مو منوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا :" يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ اے پیغمبرو! پا ک چیزیں کھا ؤ اور نیک کا م کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جاننے والا ہوں ۔ [المؤمنون: 51]اور فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ اے مومنو! جو پا ک رزق ہم نے تمھیں عنایت فرما یا ہے اس میں سے کھا ؤ ۔[البقرة: 172])
تو یہاں مطلب یہ ہے کہ: رسولوں اور ان کی امتوں کو پاکیزہ یعنی حلال چیزیں تناول کرنے اور اچھے عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ جب تک کھانا حلال ہو گا تو عمل صالح بھی مقبول ہو گا، اور اگر کھانا حلال نہیں ہو گا تو عمل مقبول کیسے ہو سکتا ہے؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کا تذکرہ فرمایا کہ حرام کھانے پینے وغیرہ کے ساتھ دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟ تو یہ حرام کھانے پینے کے ساتھ اعمال مسترد ہونے کی صرف ایک مثال ہے۔" ختم شد
"جامع العلوم والحكم" (1/ 260)
پھر متعدد شرعی نصوص میں حرام کھانے سے ممانعت موجود ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی جسم حرام سے پروان چڑھا تو آگ اس کی زیادہ حقدار ہے) اس حدیث کو امام طبرانی نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح الجامع: (4519) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ سے یہی روایت سنن ترمذی: (614) میں ہے کہ: (جوگوشت بھی حرام سے پروان چڑھے گا ، آگ ہی اس کی زیادہ حقدار ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس لیے آپ فوری توبہ کریں، اور فوری طور پر اس جگہ سے ملازمت ترک کر دیں، اور یقین رکھیں کہ رزق کے دروازے بہت زیادہ ہیں، نیز اللہ کے لیے کوئی چیز ترک کر دے تو اللہ تعالی اسے اس سے بہتر عطا فرما دیتا ہے۔
واللہ اعلم