اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا بےپردگی روزہ باطل کردیتی ہے ؟

سوال

کیا بے پردگي روزہ باطل کردیتی ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

اللہ تعالی نے روزے عظیم حکمتوں کےلیے مشروع کیے ہیں ،اور روزے کی سب سے عظیم مصلحت اورحکمت اللہ تعالی کا تقوی پیدا کرنا ہے ۔

اللہ تعالی نے روزہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمايا :

اے ایمان والو! تم پرروزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو البقرۃ ( 183 ) ۔

اللہ تعالی کے اوامر پرعمل پیرا ہونے اوراس کے منع کردہ کاموں سے اجتناب کا نام تقوی ہے ۔

لھذا روزہ دارکواطاعت کرنے کا حکم اورحرام کاموں سے تاکیدا منع کیا گيا ہے ، اس لیے کہ ہرایک سے معاصی وگناہ کا ارتکاب بہت ہی قبیح اورشنیع جرم ہے اور روزہ دارسے اس کا وقوع اورزيادہ قبیح ہوگا ۔

اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوکوئي بے ہودہ باتیں اوراس پر عمل کرنااور جہالت نہ چھوڑے تواللہ تعالی کوکوئي ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا ترک کرے ) ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6057 ) ۔

آپ مزید تفصیل کےلیے سوال نمبر ( 37989 ) اور ( 37658 ) کے جوابات کا مطالعہ ضرور کریں ۔

اورابن خزيمہ ، ابن حبان ، اورامام حاکم نے ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایات کیا ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( روزہ کھانے پینے سے رکنے کا نام نہيں ، بلکہ روزہ تو لغو اوربے ہودہ باتوں سے رکنے کانام ہے ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الترغیب ( 1082 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

عمربن خطاب اورعلی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہما کاقول ہے :

روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہيں بلکہ روزہ توجھوٹ ، باطل اوربے ہودہ ولغو باتوں سے رکنے کا نام ہے ۔

اورجابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے :

جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان ، اورتمہاری آنکھیں ، اورتمہاری زبان جھوٹ اورگناہ سے روزہ رکھے ، اورملازم کو اذيت دینے سے باز رہو ، اورروزے کی حالت میں آپ پروقار اورسکینت ہوني چاہیے ، اورتم روزے والے دن اوربغیر روزے کے دن کو برابر نہ بناؤ ۔

اورطلیق بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ کا قول ہے : جب تم روزہ رکھو تو حتی الوسع حفاظت کرو ، لھذا طلیق رحمہ اللہ جس دن روزہ سے ہوتے تو اپنے گھر میں ہی رہتے اورصرف نماز کے لیے باہرنکلتے ۔

ابوھریرہ اوران کے احباب رضی اللہ تعالی عنہم جب روزہ رکھتے تو مسجد میں بیٹھ رہتے اورکہتے ہم اپنے روزوں کوپاک کر رہے ہیں ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 4 / 305 ) ۔

اوربعض علماء کرام کا قول ہے :

روزہ دار پر واجب ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے بھی روزہ رکھے اورجوچيزاس کے لیے حلال نہیں اسے نہ دیکھے ، اورکانوں سے بھی لھذا جوچيز اس کے لیے حلال نہيں وہ نہ سنے ، اوراپنی زبان کا بھی روزہ رکھے اورزبان سے فحش گوئي نہ کرے اورکسی کو گالی نہ نکالے اورنہ ہی کسی کی غیب کرےاورنہ ہی جھوٹ بولے ۔ اھـ

مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ماہ مبارک جس میں شیطان جکڑے جاتے ہیں کوموقع غنیمت جانے ، اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، اورمنادی لگانے والا یہ پکار رہا ہوتا ہے :

اے خیروبھلائي کے چاہنے والےنیکی اورزيادہ کر ، اوراے برائي اورشر چاہنے والے برائي میں کمی کراوربازآجا ۔

لھذا مومن کو چاہے کہ وہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس ماہ مبارک کو موقع غنیمت جانتے ہوئے ہرقسم کے گناہ اورمعاصی سے سچی اورتوبہ نصوحہ کرے ، اور اللہ تعالی سے عھد کرے کہ وہ اس کے دین اورشریعت پر استقامت اختیار کرے گا اوراس کی توفیق بھی طلب کرتا رہے ۔

دوم :

معاصی اورگناہ ( جن میں عورت کی بے پردگی اوراپنی زيب وزینت جسم کی اجنبی مردوں کے لیے نمائش اوراظہار بھی ہے ) سےروزے کے اجروثواب میں کمی واقع ہوتی ہے ، اس لیے جتنی بھی معاصی اورگناہ زيادہ ہونگے روزے کا ثواب بھی اتنا ہی کم ہوگا ، اوربعض اوقات تو ثواب بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے ، جس کی بنا پر وہ صرف اپنے آپ کو کھانے پینے اوردوسری روزہ توڑنے والی اشیاء سے روکتا ہے لیکن اللہ تعالی کی معصیت سے روزے کا سارا ثواب ہی ضائع کرلیتا ہے ۔

اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

( بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں سوائے بھوک کےکچھ نہيں ملتا ، اوربہت سے ایسے قیام کرنے والے ہیں جنہیں قیام کرنے سے سوائے بیداری کے کچھ نہیں ملتا ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1690 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابن ماجہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

سبکی رحمہ اللہ اپنے فتاوی ( 1 / 221 - 226 ) میں کہتے ہیں :

کیا معاصی اورگناہ وغیرہ سے روزہ ناقص ہوجاتا ہے کہ نہيں ؟ اس میں ہم تویہی اختیارکرتے ہیں کہ روزہ ناقص ہوتا ہے ، اور میرے خیال میں اس مسئلہ میں کوئي اخلاف نہیں ۔۔۔

آپ کو علم ہونا چاہیے کہ روزہ مکمل یا پھر اس میں کمال تو اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب روزے کی حالت میں اطاعات کی جائيں مثلا قرآن مجید کی تلاوت ، اوراعتکاف ، اورنماز کے ساتھ ساتھ صدقہ وخیرات وغیرہ اعمال کرنا ، اوربعض اوقات منھیات یعنی منع کردہ اشیاء سے اجتناب کرنے سے بھی روزے میں کمال پیدا ہوتا ہے اورایسے اعمال روزے کی حالت میں مطلوب بھی ہيں ۔ اھـ باختصار ۔

سوم :

اور گناہ ومعاصی کے اجتناب سے روزے کا فاسد ہونےکے بارہ میں ہم یہ کہیں گے کہ ( جس میں عورت کی بے پردگي بھی شامل ہے ) روزہ فاسد نہيں ہوتا بلکہ روزہ صحیح ہے اورروزے دار سے فرض ساقط کردیتا ہے ، اس سے قضاء کرنے کا حکم نہيں دیا جائے گا ، لیکن معصیت سے روزے کی اجروثواب میں کمی واقع ہو جاتی ہے ، اوربعض اوقات توبالکل ہی ثواب ختم ہوجاتا ہے ، جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا جاچکا ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی " المجموع " میں کہتےہیں :

( روزے دار کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے روزہ کوغیبت وچغلی اورسب وشتم سے محفوظ رکھے ) اس کا معنی یہ ہوا کہ ایسی اشیاء سےدوسروں کی بنسبت روزہ دار کوبالاولی بچنا چاہیے کیونکہ حدیث میں یہی بیان ہوا ہے ، وگرنہ جوروزہ دارنہیں سے بھی ہرحالت میں یہی حکم ہے کہ وہ بھی سب وشتم نہ کرے ۔

اگرکوئي روزہ دار روزہ کی حالت میں غیب اورچغلی کرے توہمارے نزدیک اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا ، امام مالک ، امام ابوحنیفہ ، امام احمد اورسب علماء کرام کا بھی یہی کہنا ہے صرف امام اوزاعی کہتے ہیں کہ : غیبت وچغلی سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اوراس کے قضاء میں روزہ رکھنا واجب ہوگا ۔ اھـ

دیکھیں : المجموع للنووی ( 6 / 398 ) ۔

شیخ ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :

رمضان میں روزے کی حالت عورت اگر حرام کلام کرے توکیا اس سے روزہ فاسدہوجاتا ہے ؟

شیخ رحمہ اللہ کا جواب تھا :

جب ہم اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل فرمان پڑھتے ہیں :

اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو ۔

اس کے پڑھنے سے ہمیں روزے کی حکمت کا علم ہوتا ہے کہ اس کی حکمت تقوی و پرہيزگاری ہے ، اور حرام کردہ اشیاء سے اجتناب کوتقوی کہا جاتاہے ، اورمامور اشیاء پر عمل کرنے اورممنوع اشیاء سے اجتناب کومطلقاتقوی کہا جاتاہے ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جوکوئي بے ہودہ کلام اوراس پرعمل کرنا اورجہالت نہيں چھوڑتا تواللہ تعالی کوکوئي ضرورت نہيں کہ وہ بھوکا اورپیاسا رہے ) ۔

لھذا اس سے یہ بات یقینی معلوم ہوجاتی ہے کہ روزہ دار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقوال وافعال میں حرام اشیاء سے اجتناب کرے اورکسی کی غیبت وچغلی نہ کرے اورنہ ہی جھوٹ بولے ، اور نہ ہی کوئي حرام جيز فروخت کرے ، اوراسی طرح باقی سب حرام اشیاء سے بھی اجتناب کرے ۔

اورجب کوئي انسان ان اشیاء سے پورا ایک ماہ اجتناب کرے تو انشاءاللہ وہ باقی سارا سال بھی صحیح رہے گا ، لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے روزہ دار اپنے روزے اورغیرروزے کے دن میں کوئي فرق نہيں کرتے ، بلکہ وہ اپنی اسی عادت پر قائم رہتے ہيں جورمضان کے قبل تھی کہ دھوکہ وفراڈ ، اورچغلی وغیبت ،اورحرام اقوال وغیرہ پرعمل پیرا رہتے ہیں ۔

انہیں کوئی محسوس نہیں ہوتا کہ روزہ کا بھی کوئي وقار ہے ، لیکن یہ ہے کہ ان افعال سے روزہ باطل نہيں ہوتا بلکہ اس کے اجروثواب میں کمی پیدا ہوجاتی ہے ، اوربعض اوقات تو روزے کا اجروثواب ہی ضائع ہوجاتا ہے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الصیام لابن عثیمین رحمہ اللہ صفحہ نمبر ( 358 ) ۔

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب