الحمد للہ.
اول:
ہم بستری سے قبل طلاق ہونے پر عورت کی عدت
اگر تو پہلے خاوند نے ہم بستری سے قبل طلاق دی تھی تو اس کی کوئی عدت نہیں ہے، چنانچہ ان کا دوسرا نکاح درست ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں ہم بستری سے قبل طلاق دے دو ، تو ان پر کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو ، انہیں کچھ دے دو، اور اچھے طریقے سے چھوڑ دو۔ [الاحزاب: 49]
دوم:
ہم بستری کے بعد طلاق کی عدت
اگر طلاق پہلے خاوند نے ہم بستری کے بعد دی تھی تو پھر تین حیض عدت گزارنا اس پر واجب تھا، اس کے بعد وہ چاہتی تو شادی کر سکتی تھی، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ
ترجمہ: طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض روک کر رکھیں۔ [البقرہ: 228]
یہاں علمائے کرام کا لفظ { قُرُوءٍ} کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا اس سے مراد طہر ہے یا حیض؟ چنانچہ راجح یہی ہے کہ اس سے مراد حیض ہے، اور یہی ابو حنیفہ اور امام احمد کا موقف ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: "المغنی" (199/11)
چنانچہ اگر کوئی عورت عدت مکمل ہونے سے قبل شادی کر لیتی ہے جیسے کہ سوال میں ذکر ہوا ہے تو یہ دوسرا نکاح باطل ہو گا، اس پر تمام علمائے کرام کا اجماع ہے، لہذا یہ عورت فوری طور پر پہلے خاوند کی عدت گزارے گی، پھر دوسرے خاوند کی عدت گزار کر جس سے چاہے شادی کر لے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (237/11) میں کہتے ہیں:
"اس بات پر اجماع ہے کہ عدت گزارنے والی عورت کے لیے دوران عدت نکاح کرنا جائز نہیں، چاہے یہ کوئی سی بھی عدت ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ
ترجمہ: اس وقت تک نکاح کرنے کا پختہ عزم نہ کرو جب تک عدت کی تحریر اپنی مدت پوری نہ کر لے۔ [البقرہ: 235]
تاہم اگر کوئی نکاح کر بھی لے تو ایسا نکاح باطل ہو گا۔"
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:
"جب یہ ثابت ہو گیا تو مرد پر لازم ہے کہ عورت کو چھوڑ دے، اگر ایسا نہیں کرتا تو دونوں میں جدائی ڈالنا ضروری ہے، چنانچہ جب مرد خود چھوڑ دے یا دونوں میں جدائی ڈلوا دی جائے تو عورت پر لازم ہے کہ پہلے خاوند کی عدت مکمل کرے؛ کیونکہ پہلے خاوند کا حق پہلے بنتا ہے، نیز پہلے خاوند کی عدت نکاح صحیح میں ہم بستری کی وجہ سے لازم ہوئی تھی۔
لہذا جب پہلے خاوند کی عدت مکمل کر لے تو اب اس پر دوسرے خاوند کی عدت لازم ہے۔
دونوں کی عدتیں ایک دوسرے میں شامل نہیں ہو سکتیں؛ کیونکہ یہ دونوں عدتیں دو مختلف مردوں کی وجہ سے ہیں، یہی موقف امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔" ۔۔۔
پھر اس کے بعد یہی موقف سیدنا عمر بن خطاب، علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی نقل کیا اور کہا:
"یہ خلفائے راشدین میں سے 2 کا موقف ہے، اور صحابہ کرام میں سے کسی نے ان کے اس موقف کی مخالفت بھی نہیں کی؛ کیونکہ یہ دونوں عدتیں دو الگ الگ آدمیوں کی وجہ سے لازم ہوئی ہیں اور دونوں ہی مطلوب اور مقصود بھی ہیں، اس لیے یہ دونوں آپس میں ایک نہیں ہو سکتیں۔" ختم شد
"المغنی" (11/239)
اور اگر دوسرا خاوند ہی دوبارہ شادی کرے گا تو پھر اس صورت میں اختلاف ہے کہ کیا اب بھی پہلے خاوند کی عدت گزارنے کے بعد دوسرے خاوند سے بھی عدت گزارے گی یا نہیں؟
تو اس بارے میں صحیح موقف یہ ہے کہ اس صورت میں دوسرے خاوند سے عدت گزارنا لازم نہیں ہے، چنانچہ پہلے خاوند سے عدت گزار لے اور پھر دوسرے سے نکاح کر لے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (8/100) میں کہتے ہیں:
"امام شافعی رحمہ اللہ اپنے جدید موقف میں کہتے ہیں کہ: دوسرا خاوند پہلے خاوند کی عدت مکمل ہونے کے بعد نکاح کر سکتا ہے، لہذا دوسرے خاوند کی وجہ سے لازم ہونے والی عدت کے دوران اسے نکاح کرنے سے نہیں روکا جائے گا؛ کیونکہ دوران عدت نکاح نہ کرنے کی ممانعت نسب کی حفاظت اور مادہ منویہ کے تحفظ کے پیش نظر ہے، اور یہاں نسب تو اسی خاوند کی طرف منسوب ہو گا، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے خلع دیا اور پھر دوران عدت اسی سے نکاح کر لیا، لہذا یہ موقف اچھا اور عقل میں سمجھ آنے والا ہے۔۔۔" ختم شد
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قواعد و ضوابط کی رو سے : راجح موقف یہ ہے کہ پہلے شخص سے عدت مکمل ہونے پر دوسرے کے لیے وہ عورت حلال ہے، خصوصا ایسی صورت میں کہ جب وہ اللہ تعالی سے توبہ کر لے اور رجوع کر لے؛ کیونکہ یہ دوسری عدت اسی کی وجہ سے ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (13/383)
تاہم یہ سب کچھ لڑکی کے ولی، دو گواہوں اور نئے حق مہر کے ساتھ ہو گا۔
جواب کا خلاصہ:
یہ عورت دوسرے خاوند سے فورا جدا ہو جائے، اور پھر پہلے خاوند کی عدت گزارے، پھر جب عدت ختم ہو جائے تو اس کی مرضی ہے کہ دوسرے سے نکاح کر لے، تاہم یہ سب کچھ لڑکی کے ولی، دو گواہوں اور نئے حق مہر کے ساتھ ہو گا۔
اگر ماضی میں جو کچھ بھی ہوا یہ عدت کے متعلق لاعلمی کی بنا پر تھا تو اس پر مذکورہ بیان کردہ طریقے کے مطابق عدت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تاہم آپ نے شرعی عقد نکاح کے بارے میں اہل علم سے استفسار نہیں کیا تو یہ آپ کی سستی اور کاہلی کی علامت ہے، اس کے لیے آپ اللہ تعالی سے بخشش مانگیں، نیز اس کا کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے۔
واللہ اعلم