الحمد للہ.
عقيقہ سنت مؤكدہ ہے، اور ترك كرنے والے گناہ نہيں، كيونكہ سنن ابو داود ميں عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كا بچہ پيدا ہو اور وہ اس كى جانب سے جانور ذبح كرنا پسند كرے تو ذبح كرے، بچے كى جانب سے دو كفائت كرنے والے بكرے، اور بچى كى جانب سے ايك بكرا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2842 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں حسن قرار ديا ہے.
چنانچہ اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے معاملہ كو چاہت اور محبت پر معلق كيا ہے، اور يہ اس كے مستحب ہونے كى دليل ہے نہ كہ واجب ہونے كى "
ديكھيں: تحفۃ المودود صفحہ ( 157 ).
مسلمان شخص كو اس ميں كوتاہى نہيں كرنى چاہيے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر بچہ اپنے عقيقہ كے بدلے رہن اور گروى ركھا ہوا ہے، اس كى جانب سے ساتويں روز ذبح كيا جائے، اور اس كا سر مونڈا جائے اور اس كا نام ركھا جائے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 4220 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2838 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1522 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3165 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
آپ كو اب بچى كا عقيقہ كر لينا چاہيے، اور وہ يہ كہ عقيقہ كى نيت سے ايك بكرا ذبح كر ديں.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" عقيقہ سنت مؤكدہ ہے، لڑكے كى جانب سے دو اور لڑكى كى جانب سے ايك بكرى جس طرح كى قربانى ميں ذبح ہوتى ہے اسى طرح عقيقہ كى بھى ذبح كى جائيگى، اور عقيقہ پيدائش كے ساتويں روز كيا جائيگا، اور اگر ساتويں روز سے تاخير كرے تو بعد ميں كسى بھى وقت عقيقہ كرنا جائز ہے، اور اس تاخير سے وہ گنہگار نہيں ہوگا، ليكن افضل اور بہتر يہى ہے كہ حتى الامكان جلد كيا جائے اور تاخير نہ ہو " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 934 ).
تنبيہ:
آپ كا يہ كہنا كہ:
" ميں نے اس كے عوض ميں كوئى صدقہ نہيں كيا "
يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ مال صدقہ كرنا عقيقہ كے قائم مقام نہيں بن سكتا، كيونكہ عقيقہ كا مقصد ذبح كر كے اللہ كا قرب حاصل كرنا ہے.
آپ مزيد تقصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 34974 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .