الحمد للہ.
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
فصل:
سنت يہ ہے كہ جو شخص خطبہ دے وہى نماز بھى پڑھائے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ دونوں كام خوج سرانجام ديتے تھے، اور اسى طرح ان كے خلفاء راشدين بھى.
اور اگر ايك شخص خطبہ جمعہ دے اور كسى عذر كى بنا پر دوسرا شخص نماز پڑھائے تو جائز ہے، يہ امام احمد نے بيان كيا ہے..
كيونكہ كسى عذر كى بنا پر ايك نماز ميں ہى كسى دوسرے كا نائب بننا جائز ہے، تو نماز كے ساتھ خطبہ ميں بالاولى جائز ہوا، اگر كوئى عذر نہ ہو تو امام احمد كہتے ہيں: بغير كسى عذر كے مجھے ايسا كرنا پسند نہيں، تو ممانعت كا احتمال ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دونوں كام خود سرانجام ديتے تھے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "
صحيح بخارى و مسند احمد.
اور اس ليے بھى كہ خطبہ دو ركعت كى جگہ ہے، اور جواز كا بھى احتمال ہے؛ كيونكہ خطبہ نماز سے منفصل اورعليحدہ ہے، تو اس طرح دو نمازوں كے مشتبہ ہوا.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ جلد ( 2 ) كتاب الجمعہ فصل: يتولى الصلاۃ من يتولى الخطبۃ.
مزيد ديكھيں: البدائع ( 1 / 262 ) الشرح الكبير ( 1 / 499 ).
اور كسى حافظ قرآن شخص كا نماز پڑھانا جو كہ خطيب سے قرآن كا زيادہ حافظ تھا سنت كى مخالفت كو جائز نہيں كرتا، كيونكہ خطيب امام تھا اس ليے خطيب ہى لوگوں كو نماز پڑھائے، اور جو قرآن اسے ياد ہے وہى نماز ميں پڑھے، چاہے مقتديوں ميں اس كے پيچھے اس سے زيادہ حافظ ہى كيوں نہ ہو.
واللہ اعلم .