اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایمان بالغیب کیا ہے؟ اور اس کی کیا اہمیت ہے؟

سوال

میں نے ایک شیخ مکرم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ: اگر ہم اللہ تعالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو پھر امتحان کا تو کوئی مقصد ہی باقی نہیں رہ جاتا، چنانچہ آپ فرمانِ باری تعالی : يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ترجمہ: اور وہ بن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔[البقرۃ: 3] آیت کریمہ کو صحیح سمجھ سکتے ہیں، لہذا اگر ہم نے اللہ تعالی کو نہیں دیکھا تو یہی ہمارا امتحان ہے کہ کیا ہم بن دیکھے ایمان لا سکتے ہیں؟ تو اب میرا سوال یہ ہے کہ: ایک شخص اپنے بارے میں نہیں جانتا کہ کیا وہ سچا اور حقیقی مومن ہے یا نہیں؟ تو کیا انسان کا اپنے بارے میں علم نہ ہونا بھی اسی امتحان میں شامل ہے؟ مثال کے طور پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا میں منافقین میں سے ہوں یا نہیں؟ یہ بات کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ: کسی امام محترم سے بھی یہ منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں: جب بھی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا کہ میں تو ریا کاری کا مرتکب ہو رہا ہوں تو میں اپنے عمل میں مزید اضافہ کر دیتا ہوں۔ اسی طرح کسی تابعی مکرم سے بھی یہ منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں متعدد صحابہ کرام سے ملا ہوں وہ سب کے سب اپنے آپ سے نفاق کی نفی نہیں کرتے تھے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ: کیا یہ سب امور معمولی ہیں؟ اور کیا کوئی بھی شخص اپنے بارے میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ یقینی طور پر مومن ہے؟

الحمد للہ.

اول:

ایمان بالغیب کا مفہوم اور معنی

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ انسان کے ایمان کا جائزہ لینے کے لیے “ایمان بالغیب” بنیادی ترین حیثیت رکھتا ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے: الم، ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ، الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ  ترجمہ: الف ، لام، میم۔ اس کتاب میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے ، یہ متقین کے لیے ہدایت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان بالغیب لاتے ہیں۔۔۔ [البقرۃ: 1 – 3]

اور غیب ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی حسی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی حاصل نہ کر سکے، چنانچہ ایمانیات میں غیب سے مراد ماضی و مستقبل سے متعلق ایسی تمام چیزیں لی جاتی ہیں جن کے بارے میں ہمیں وحی نے خبر دی اور وہ چیزیں ہماری کسی بھی قسم کی دسترس سے دور ہیں، مثلاً: فرشتوں کے متعلق، برزخی زندگی کے متعلق، اسی طرح جو کچھ بھی قیامت کے دن ہو گا، روزِ آخرت میں ملنے والے عذاب، نعمتوں اور حساب وغیرہ سب غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس لیے ایمان بالغیب میں ایمانیات کی بنیادی چیزیں شامل ہیں۔

علامہ واحدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی : بِالْغَيْبِ لفظ غیب: عربی زبان کے فعل “غاب یغیب غیبا” کا مصدر ہے، اور یہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جسے آپ نہیں دیکھ رہے اور وہ آپ سے غیب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے: عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ   یعنی وہ ذات جو ہر غیب اور حاضر چیز کو جانتی ہے۔ اسی طرح عرب لوگ زمین میں پڑے ہوئے کھڈے کو بھی غیب کہتے ہیں، کیونکہ ہموار سطح پر دور سے زمین یا یہ گڑھا نظر نہیں آتا۔۔۔

ابو العالیہ رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالی: يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ترجمہ: اور وہ بن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔[البقرۃ: 3] کے متعلق کہتے ہیں: یعنی متقی لوگ اللہ تعالی پر، اللہ کے فرشتوں پر، اللہ تعالی کی نازل کردہ کتابوں پر، اللہ کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں، اسی طرح جنت، جہنم، اللہ تعالی سے ملاقات، اور موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

گویا کہ سورت بقرۃ کے آغاز میں جو چیز مختصراً ذکر کی گئی ہے اس کی تفصیل سورت بقرۃ کے آخر میں اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:  كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ  ترجمہ: سب کے سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے ، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ [البقرۃ: 285] ۔۔۔

ابو اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں: کوئی بھی چیز جس کا صحابہ کرام کو علم نہیں تھا، اور انہیں اس کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی تو وہ غیب ہے۔

لفظ غیب کی وضاحت کے سلسلے میں مفسرین نے یہی طریقہ کار اپنایا ہے۔” ختم شد

ماخوذ از: “تفسیر البسيط” (2/ 68-71)

علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہی وہ شرعی ایمان ہے جس کی طرف سیدنا جبریل علیہ السلام کی حدیث میں اشارہ موجود ہے کہ جب انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا تھا: “مجھے ایمان کے بار ے میں بتلائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ ۔ تو جبریل نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔” علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے مکمل حدیث بیان فرمائی۔” ختم شد
“تفسير القرطبي” (1/252)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ایمان کی بنیاد ایمان بالغیب ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: الم، ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ، الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ترجمہ: الف ، لام، میم۔ اس کتاب میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے ، یہ متقین کے لیے ہدایت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان بالغیب لاتے ہیں۔۔۔ [البقرۃ: 1 – 3]

جس غیب پر ایمان لایا جاتا ہے وہ وہی عمومی چیزیں ہیں جن کے بارے میں رسولوں نے خبر دی ہے، انہی عمومی چیزوں میں اللہ تعالی پر ایمان، اللہ تعالی کے اسما و صفات پر ایمان، فرشتوں اور جنت و جہنم پر ایمان بھی شامل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی پر ایمان، رسولوں پر ایمان، اور آخرت پر ایمان بھی ایمان بالغیب میں شامل ہے؛ کیونکہ کسی کے پاس رسالت کا درجہ ہونا بھی غیب سے تعلق رکھتا ہے، اور ایمان بالغیب کی تفصیل یہ ہے کہ: اللہ پر ایمان لائیں، اللہ کے فرشتوں پر ایمان لائیں، اللہ کی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لائیں، اسی طرح آخرت کے دن پر ایمان لائیں، ان سب چیزوں کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا ہے: وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ ترجمہ: اور لیکن نیکی والا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو۔ [البقرۃ: 177] اور ایمان کا متضاد ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ترجمہ: اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ [النساء: 136] ” ختم شد
ماخوذ از: “مجموع الفتاوى” (13/ 232-233)

غیب پر ایمان در حقیقت ایسا امتحان ہے جس سے سچے اور جھوٹے ایمانی دعوے دار میں امتیاز ہوتا ہے۔

الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی: الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ یعنی: ” وہ لوگ جو غیب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں“ حقیقتِ ایمان ان امور کی کامل تصدیق کا نام ہے جن کی خبر انبیاء و رسل نے دی ہے یہ تصدیق جو ارح کی اطاعت کو بھی اپنے اندر شامل کرتی ہے۔ ایمانیات کے باب میں چیزوں کے حسی مشاہدے سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ ایمانیات کے باب میں ایمان کا تعلق تو اس غیب سے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ ہی اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خبر دینے سے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے کیونکہ یہی ایمان مجرد اللہ اور اس کے انبیاء و مرسلین کی تصدیق ہے۔ چنانچہ مومن وہ ہے جو ہر اس چیز پر ایمان لاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے خواہ اس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو خواہ اس نے اسے سمجھا ہو یا اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی ہو۔

جبکہ زنادقہ اور غیبی امور کی تکذیب کرنے والوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ان کی عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر رہی اور وہ ان امور تک نہ پہنچ سکے بنا بریں انہوں نے ان امور کو جھٹلا دیا جن کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا۔ پس ان کی عقل فاسد ہو گئی اور ان کا فہم خرابی کا شکار ہو گیا ؛ جبکہ غیبی امور کی تصدیق کرنے والے اہل ایمان کی عقل ان سے ممتاز ہو گئی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو رہنما بنا لیا۔

ایمان بالغیب سے مراد ان تمام غیبی امور پر ایمان لانا ہے جن کا تعلق ماضی، مستقبل، احوال آخرت، اللہ تعالیٰ کی صفات حقیقت اور انکی کیفیات سے ہے اور ان امور کے ساتھ بھی ہے جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے دی ہے۔ پس اہل ایمان نہایت یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔” ختم شد
“تفسیر سعدی” (ص40–41)

واضح ہوا کہ غیر مشاہداتی امور جن کے بارے میں رسولوں نے خبر دی ان پر ایمان لانے والا شخص ہی وہ ہے جس کا ایمان ثابت شدہ ہے۔

اسی لیے فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ  ترجمہ: یقیناً مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہیں یہی سچے اور راست گو ہیں ۔[الحجرات: 15]

جبکہ کافروں میں سے متعدد ایسے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی طرف بھیجنے جانے والے رسول جھوٹ نہیں بولتے، لیکن غیب کا پھر بھی انکار کرتے ہیں، اور اپنے اس نظریے کے لیے کئی عذر پیش کرتے ہیں، لیکن جب یہی کافر موت کے فرشتوں کو دیکھیں گے اور آخرت کا مشاہدہ کر لیں گے تو اب اس حالت میں ان کا ایمان قبول کرنا انہیں فائدہ نہیں دے گا؛ کیونکہ وہ اب تو مجبوری سے ایمان لا رہے ہیں تصدیق ہو جانے کی وجہ سے نہیں؛ چنانچہ اگر انہیں دوبارہ دنیا میں آنے کا موقع ملا تو وہ پھر سے تکذیب کی اپنی اصلی روش پر واپس آ جائیں گے۔

انہی کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَالَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ، بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ، وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ
ترجمہ: کاش آپ وہ وقت دیکھ سکیں جب انہیں دوزخ کے کنارے کھڑا کیا جائے گا تو کہیں گے :’’ کاش ہم دوبارہ دنیا میں بھیجے جائیں تو اپنے پروردگار کی آیات کو کبھی نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہو جائیں‘‘ [27] (بات یوں نہیں) بلکہ اس سے بیشتر جو کچھ وہ چھپا رہے تھے وہ ان پر ظاہر ہو جائے گا اور اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیجا بھی جائے تو پھر بھی وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ یہ دراصل ہیں ہی جھوٹے ۔ [28] وہ تو یہ کہتے ہیں کہ: ’’ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور (مر جانے کے بعد) ہمیں اٹھایا نہیں جائے گا‘‘ [الانعام: 27 – 29]

اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی: بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ  میں لفظ “بل” سابقہ کلام کی تردید اور نئی چیز کا بیان اپنے اندر یہ معنی رکھتا ہے کہ: سابقہ آیت میں کافروں نے دنیا میں واپسی کا مطالبہ اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ دلی طور پر ایمان قبول کرنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ اس لیے ایمان لانے کا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ اپنی آنکھوں سے دکھنے والے عذاب سے ڈر گئے ہیں جو انہیں ان کے کفر کے بدلے میں دیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے اس عذاب سے بچنے کے لیے دنیا میں واپسی کا مطالبہ کیا نہ کے ایمان کی دل میں رغبت اور محبت پیدا ہو جانے کی وجہ سے، اسی لیے تو اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا: وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ یعنی اگر انہیں دنیا میں لوٹا دیا گیا تو پھر بھی وہاں وہی کارستانیاں کریں گے جن سے انہیں روکا جاتا ہے، اور یہ رغبت اور محبت کے ساتھ ایمان لانے کے دعوی میں جھوٹے ہیں۔

پھر اس کے بعد اللہ تعالی نے ان کے بارے میں بتلایا: اگر انہیں دنیا میں بھیج دیا گیا تھا تو واپس جا کر بھی یہ کفر اور مخالفت کا راستہ ہی اپنائیں گے۔ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ یعنی وہ اپنی ان باتوں میں جھوٹے ہیں: يَالَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ یعنی: کاش ہم دوبارہ دنیا میں بھیجے جائیں تو اپنے پروردگار کی آیات کو کبھی نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہو جائیں۔ اور ایسے ہی: وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ  یعنی: زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں دوبارہ اٹھایا نہیں جائے گا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ یہ دنیا میں آ کر پھر وہی سابقہ روش اختیار کریں گے اور منع کردہ کاموں کا ارتکاب کریں گے لہذا یہ جھوٹے ہیں، بلکہ واپس جا کر یہ کہیں گے کہ: إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا  ہماری صرف یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد آخرت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پھر اسی بات کی مزید تاکید کریں گے: وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ اور ہمیں بالکل بھی اٹھایا نہیں جائے گا۔” ختم شد
تفسیر ابن کثیر: (3/249)

اب اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ غیبی چیزوں کے عینی مشاہدے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ اچھے دل کے مالک افراد جنہیں ایمان سے محبت ہوتی ہے انہیں اس کا فائدہ ہوتا ہے کہ ان چیزوں کے مشاہدے سے ان کے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

جیسے کہہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ اللہ تعالی نے ان کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور جب ابراہیم نے کہا تھا کہ : اے میرے پروردگار! مجھے دکھلا دے کہ تو ’’مردوں کو کیسے زندہ کرے گا‘‘ اللہ تعالیٰ نے پوچھا : ’’کیا تجھے اس کا یقین نہیں؟‘‘ ابراہیم نے جواب دیا : ’’کیوں نہیں! لیکن میں اپنے دل کا اطمینان چاہتا ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اچھا تو چار پرندے لو اور انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لو۔ پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو۔ پھر انہیں پکارو، وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے [البقرۃ: 260]

اسی بات کی طرف سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ پھر جہاں وہ کچھ ایسے لوگوں کو پا لیتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا ۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں ۔ [پھر ذکر ختم ہونے پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں ۔ ] پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے….حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے….کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ کہا کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا جب انہوں نے مجھے دیکھا ہوا ہوتا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس کے اور بھی زیادہ خواہشمند ہوتے ، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے ۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ، دوزخ سے ۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ ، انہوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ ( ذاکرین ) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا ۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6408) اور مسلم : (2689) نے روایت کیا ہے۔

تو اس حدیث مبارکہ میں ہے کہ اگر وہ اللہ تعالی کو دیکھیں یا جنت یا جہنم کا مشاہدہ کریں تو اس سے انہیں فائدہ ہو گا کہ ان کا ایمان بڑھ جائے گا اور قلبی تصدیق میں اضافہ ہو گا۔

آج کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان بھی ایمان بالغیب کی ہی ایک قسم ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کرنے والے صحابہ کرام کو ایمانی فائدہ بھی ہوا۔

امام سعید بن منصور رحمہ اللہ نے ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جیسے کہ : “التفسير من سنن سعيد بن منصور” (2/ 544) میں ہے کہ: ہمیں ابو معاویہ نے خبر دی، انہوں نے اعمش سے ، انہوں نے عمارہ بن عمیر سے، اور انہوں نے عبد الرحمن بن یزید سے کہ وہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بار: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام اور ان کی ایمانی کیفیت کا تذکرہ ہوا تو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہنے لگے: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کرنے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معاملہ بالکل واضح تھا ۔ جبکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں! کوئی بھی مومن ایمان بالغیب سے اچھا ایمان نہیں لا سکتا، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: الم، ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ، الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ترجمہ: الف ، لام، میم۔ اس کتاب میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے ، یہ متقین کے لیے ہدایت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان بالغیب لاتے ہیں۔۔۔ [البقرۃ: 1 – 3]

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس آیت کریمہ میں غیب سے مراد کے متعلق 6 اقوال ہیں: ۔۔۔ چھٹا قول: اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایسے لوگوں کا ایمان ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا نہیں ہے۔ اس حوالے سے جناب عمرو بن مرۃ کہتے ہیں: ایک بار سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے ان سے عرض کیا: آپ بہت خوش نصیب ہیں کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجالس میں بیٹھتے رہے۔ اس پر سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کرنے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معاملہ بالکل واضح تھا، لیکن ان سے بڑھ کر معاملہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے قرآن کریم لکھا ہوا پایا اور اس پر ایمان لائے حالانکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا تک نہیں تھا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان بالغیب لاتے ہیں۔۔۔ [البقرۃ: 3]” ختم شد
“زاد المسير” (1/ 24-25)

دوم:

انسان کو اللہ تعالی کے ہاں اپنے مقام و مرتبے کا علم نہ ہو تو اس کا ایمان بالغیب سے کوئی تعلق نہیں ۔

مندرجہ بالا تفصیلات سے بالکل واضح ہے کہ اگر انسان کو اپنے اللہ تعالی کے ہاں مقام و مرتبے کا علم نہ ہو تو اس کا تعلق اس ایمان بالغیب کے ساتھ نہیں ہے جسے لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور اس میں کمی ہونے پر ہمارا محاسبہ کیا جائے گا۔

بلکہ اس کا تعلق غیبی باتوں کے متعلق اندازے لگانے سے ہے جو کہ منع ہے، اسی طرح بلا دلیل بات کرنے سے اس کا تعلق ہے جس سے ہمیں شریعت نے روکا ہے؛ اس لیے انسان کو علم نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس کے کون سے اعمال قبول فرمائے گا، پھر انسان کو اپنے انجام کار کا بھی علم نہیں ہے اس لیے انسان اپنی بڑائی اور پاکبازی بیان نہیں کر سکتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی رحمت اور کرم سے ناامید بھی نہیں ہو سکتا، چنانچہ انسان ہمیشہ خوف اور رجاء دونوں کی درمیانی کیفیت میں رہے گا۔

اسی کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے: اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ، وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
ترجمہ: تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خفیہ انداز سے پکارو؛ وہ یقیناً حد سے تجاوز کرنے والوں سے محبت نہیں فرماتا۔ [55] زمین پر اصلاح کے بعد خرابی مت پھیلاؤ، اور اللہ تعالی کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، یقیناً اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے قریب ہے۔ [الاعراف: 55 – 56]

الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی: وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی سزا سے ڈرتے ہوئے اور ثواب کی امید کرتے ہوئے اللہ تعالی کو پکارو، اسی طرح دعا کی قبولیت کی امید اور مسترد ہو جانے کے خوف سے پکارو۔ اس بندے کی طرح دعا نہ مانگو جو ناز و ادا کے ذریعے سے اپنے رب کے سامنے جرأت اور گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو خود پسندی کا شکار ہے اور جس نے اپنے نفس کو اس کی اصل حیثیت سے بڑھ کر حیثیت دی ہے اور نہ اس شخص کی طرح دعا مانگو جو غافل دل کے ساتھ دعا مانگتا ہے۔ ” ختم شد
“تفسیر سعدی” (ص 292)

اسی خوف اور امید کی وجہ سے صحابہ کرام اپنے بارے میں نفاق کا خدشہ رکھتے تھے اور اپنے آپ کو پارسا قرار نہیں دیتے تھے، نہ ہی اپنے اعمال کی قبولیت کا حتمی فیصلہ سناتے تھے، بلکہ ہمیشہ یہ خدشہ رکھتے تھے کہ کہیں ان سے کوئی ایسی سرگرمی سر زد نہ ہو جائے جس سے وہ نفاق میں جا گریں اور انہیں شعور بھی نہ ہو، چنانچہ صحابہ کرام اپنے آپ کو کبھی بھی معصوم عن الخطا قرار نہیں دیتے تھے۔

اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا: “باب ہے اس بیان میں کہ مومن خدشہ رکھتا ہے کہ اس کے اعمال ضائع ہو جائیں اور اسے شعور ہی نہ ہو۔”

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے تحت بیان کیا ہے کہ:
“ابراہیم تیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب بھی میں نے اپنے کردار اور گفتار کا موازنہ کیا تو مجھے ایسا لگا کہ میرا کردار میری گفتار جیسا نہیں ہے۔ ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں تیس سے زائد صحابہ کرام کو ملا ہوں، سب ہی اپنے بارے میں نفاق کا خدشہ رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے بارے میں یہ نہیں کہتا تھا کہ: اس کا ایمان جبریل اور میکائیل جیسا ہے۔ ایسے ہی حسن بصری رحمہ اللہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا: نفاق کا خدشہ مومن کو ہی ہوتا ہے اور نفاق سے بے خوف منافق ہی ہوتا ہے۔” ختم شد
“فتح الباري” (1/ 109-110)

علامہ ابن رجب رحمہ اللہ ان آثار کی شرح میں کہتے ہیں:

“اس کی بنیاد پہلے گزر چکی ہے کہ: نفاق کی دو قسمیں ہیں: نفاق اصغر اور نفاق اکبر؛ چنانچہ نفاق اصغر عملی نفاق کو کہتے ہیں اور سلف صالحین اپنے بارے میں اسی نفاق اصغر کا خدشہ رکھتے تھے، تاہم نفاق اصغر ؛ نفاق اکبر کا ذریعہ اور وسیلہ ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں عام طور پر نفاقِ اصغر کا مرتکب ہو تو ممکن ہے کہ وہ نفاق اکبر میں مبتلا ہو جائے اور ایمان سے کلی طور پر خارج ہو جائے، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: فَلَمَّا ‌زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ  ترجمہ: پس جب وہ حق سے مائل ہوئے تو اللہ تعالی نے ان کے دلوں کو مائل کر دیا۔[الصف: 5] نیز فرمانِ باری تعالی ہے: وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ  ترجمہ: اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو ایسے ہی پھیر دیں گے جیسے ان کے پہلے بھی اس پر ایمان نہیں لائے تھے، اور ہم انہیں سرکشی میں حیران چھوڑ دیں گے۔[الانعام: 110] ” ختم شد
“فتح الباري” (1/195)

یہی وجہ ہے کہ اپنے ایمان کے متعلق بتلاتے ہوئے ان شاء اللہ کہنا جائز ہے، یعنی مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ: “میں ان شاء اللہ مومن ہوں” مطلب یہ ہے کہ: ایمان میں واجب کاموں کی تعمیل اور حرام کاموں سے بچنا بھی شامل ہے تو مومن شخص ان دونوں قسموں کے اعمال میں کوتاہی کا خدشہ رکھتا ہے اس لیے اپنے آپ کو کامل ایمان کا حامل قرار یقینی طور پر قرار نہیں دیتا کیونکہ اسے تو اس کے کامل ہونے کا علم ہی نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سلف صالحین میں سے اصحاب الحدیث جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور آپ کے شاگرد، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، اور اکثر کوفی علمائے کرام، یحیی بن سعید قطان کی اہل بصرہ سے روایت کردہ روایات کے مطابق، اور امام احمد بن حنبل وغیرہ جیسے ائمہ حدیث کا موقف یہ ہے کہ ایمان کے باب میں ان شاء اللہ کہتے تھے۔۔۔

بلکہ ان ائمہ کرام نے بڑی صراحت کے ساتھ بتلایا ہے کہ اس باب میں ان شاء اللہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایمان میں واجب اعمال کی تعمیل شامل ہے، اس لیے وہ اپنے بارے میں کامل شکل میں ان واجبات کی تعمیل کی گواہی نہیں دیتے، بالکل اسی طرح اپنے آپ کو کامل درجے کی نیکی اور تقوی کا حامل بھی قرار نہیں دیتے؛ کیونکہ انہیں ان سب چیزوں کا علم نہیں ہے، نیز بلا دلیل اپنے آپ کو پارسا قرار دینا ہے۔” ختم شد
“مجموع الفتاوى” (7/ 438–439)

آپ رحمہ اللہ مزید یہ بھی کہتے ہیں:
“ایمان مطلق میں ان تمام احکامات کی تعمیل بھی شامل ہے جو اللہ تعالی نے بندوں کو دئیے ہیں، اسی طرح تمام ممنوعات سے بچنا بھی ایمان میں شامل ہے؛ چنانچہ اگر کوئی شخص اسی اعتبار سے کہے: میں مومن ہوں تو وہ اپنے آپ کے بارے میں گواہی دے رہا ہے کہ وہ بڑا پارسا، نیک، متقی، اور تمام احکامات کی بجا آوری لانے والا اور تمام ممنوعہ کاموں سے رکنے والا ہے؛ لہذا وہ اللہ کے ولیوں میں شامل ہے ۔ تو یہ انسان کی خود ستائی اور ذاتی پاکیزگی بیان کرنے کے زمرے میں آتا ہے، ایسی بات کر کے انسان اپنے بارے میں ایسی گواہی دیتا ہے جس کا در حقیقت اسے ادراک ہی نہیں ہے۔ اور اگر اس کا یہ گواہی دینا درست ہوتا تو وہ اپنے جنتی ہونے کی بھی گواہی دے بشرطیکہ اسی حالت میں فوت ہو۔ لیکن کوئی بھی اپنے آپ کے جنتی ہونے کی گواہی نہیں دے سکتا۔ تو گویا اپنے ایمان کی گواہی دینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے جنتی ہونے کی گواہی دیتا ہے بشرطیکہ وہ اسی حالت میں فوت ہو۔ تو جن اہل علم کے ہاں ایمان کے باب میں ان شاء اللہ کہنے کا جواز ملتا ہے اس کی وجہ یہی ہے، اگرچہ انہوں نے بھی ایک اور مفہوم کے مطابق ترک استثنا کی گنجائش دی ہے، اس کی تفصیلات ہم ان شاء اللہ بیان کریں گے۔” ختم شد
“مجموع الفتاوى” (7/446)

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ انسان اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں قطعی بات نہ کرے، بلکہ اسلام کے بارے میں قطعی بات کرنی چاہیے، اور انسان کے دل میں اللہ تعالی پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان کے بارے میں بالکل شک نہ کرے۔

اس حوالے سے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“امام احمد اور دیگر سلف صالحین اسلام کے متعلق بالجزم بات کرتے تھے، اور اسلام کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے دل میں موجود ایمان کے بارے میں شک نہیں کرتے تھے۔ ان کے ہاں ایسی صورت حال میں ان شاء اللہ کہنا ایمان مطلق کے بارے میں ہوتا تھا کہ جس میں تمام واجبات پر عمل بھی شامل ہوتا ہے۔” ختم شد
“مجموع الفتاوى” (7/450)

ابن ابی العز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو لوگ ایمانیات کے باب میں ان شاء اللہ کہنے کے بارے میں جواز اور ممانعت دونوں کے قائل ہیں ؛ تو دلیل فریقین میں سے انہی لوگوں کے پاس ہے، اعتدال پر مبنی معاملہ ہی بہترین ہوتا ہے: چنانچہ اگر ان شاء اللہ کہنے والا شک ایمان کی بنیاد کے متعلق کرے تو اسے ان شاء اللہ کہنے سے روکا جائے گا، اس بات میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اور اگر ان شاء اللہ کہنے والے کا مقصد یہ ہو کہ وہ اس طرح کا مومن ہے جن کا ذکر اللہ تعالی نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ، الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ، أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ  ترجمہ: سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب اللہ کی آیات انہیں سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں [2] جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ مال و دولت ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [3] یہی سچے مومن ہیں ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں درجات ہیں، بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے۔ [الانفال: 2 -4] اور اسی طرح فرمایا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ  ترجمہ: مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہیں پڑے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی سچے مومن ہیں۔ [الحجرات: 15] تو ایسی صورت میں ان شاء اللہ کہنا جائز ہو گا۔” ختم شد
“شرح الطحاوية” (ص 353)

سوم:

نفاق کا خدشہ رکھنا

دل میں نفاق کا خدشہ رکھنا تب قابل تعریف ہو گا جب یہ خوف انسان کو مزید نیکیوں کی جانب ابھارے، لہذا جب انسان عبادت کرتے ہوئے ریا کاری کا خدشہ دل میں رکھے تو یہ خدشہ ایسا ہونا چاہیے جس سے انسان ریا کاری کا مقابلہ کرنے کے لیے پر عزم ہو اور یہی نہیں کہ عبادت پر گامزن رہے بلکہ عبادت کی مقدار میں بھی اضافہ کر دے۔ لہذا ایسا خدشہ اور خوف نہیں ہونا چاہیے جو مسلمان کی عبادت میں دلچسپی ختم کر دے اور ریا کاری پیدا ہونے کے نام پر عبادات سے روگرداں کر دے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب