الحمد للہ.
ہم نے مندرجہ ذيل سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى كے سامنے ركھا:
سوال: ؟
ميں اپنا صدقہ خيراتى تنظيموں كو دينا چاہتا ہوں ليكن والد صاحب ميرى مخالفت كرتے ہيں، اور رشتہ دار اوراقرباء ميں تقسيم كرنے كو افضل قرار ديتے ہيں، اور مجھ پر يہ لازم كرنا چاہتے ہيں، تو كيا يہ حديث: " تو اورتيرا مال تيرے باپ كا ہے" سے يہ نكلتا ہے كہ والد بيٹے پر صدقہ و خيرات كى جگہوں پر بھى كنٹرول ركھتا ہے؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
يہ اس ميں داخل نہيں، ليكن اگر وہ اس كى ملكيت ميں ہو تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں، جب تك بيٹے كے صدقہ كو منع كرنے ميں كوئى حيلہ نہ ہو، ليكن اس كے ساتھ ميں بيٹے كو يہ اشارہ كرتا ہوں كہ وہ رشتہ دار اور اقرباء كو صدقہ دے كيونكہ يہ افضل ہے. انتہى
لہذا والد كو يہ حق نہيں كہ وہ بيٹے كو كسى خاص جگہ صدقہ كرنے كا لازم ٹھرائے، اور كسى جگہ اسے صدقہ كرنے سے منع كرے، ليكن بيٹے كے ليے مستحب ہے كہ وہ والد كى خواہش اور رغبت كو تسليم كرے جبكہ اس نے اسے نيكى و بھلائى كے كام كى طرف اشارہ كيا ہے اور وہ رشتہ داروں كو مال دے كر صلہ رحمى كرنا ہے.
اور اگر مال زيادہ ہو اور رشتہ داروں سے بھى زيادہ حاجتمند لوگ ہوں تو ممكن ہے كچھ مال رشتہ داروں كو اور كچھ دوسرے محتاجوں كو دے ديا جائے، يا پھر اسلامى اور اہم منصوبوں ميں صرف كيا جائے.
اور حديث: " تو اور تيرا مال تيرے والد كا ہے" ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ ميں جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى ہے كہ:
" ايك شخص نےكہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا مال بھى ہے اور اولاد بھى، اور ميرا والد ميرا مال لينا چاہتا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تو اور تيرا مال تيرے والد كا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2282 ) الزوائد ميں ہے: اس كى سند صحيح ہے اور اس كے رجال ثقات اور بخارى كى شرط پر ہے.
اور حديث ميں لفظ " يجتاح " كا معنى يہ ہے كہ ميرا والد مال كو اپنى ضروريات ميں صرف كرنا چاہتا ہے، اوركچھ باقى نہ رہے.
حديث كى شرح ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 4282 ) كا جواب ديكھيں.
واللہ اعلم .