جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

وضوء كى دعائيں

45730

تاریخ اشاعت : 03-01-2007

مشاہدات : 14461

سوال

وضوء كے وقت پڑھى جانے والى دعائيں كونسى ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

وضوء سے پہلے اور بعد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دعائيں پڑھنى ثابت ہيں:

وضوء كرنے سے قبل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بسم اللہ كے علاوہ كوئى اور دعاء ثابت نہيں، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص بسم اللہ نہيں پڑھتا اس كا وضوء ہى نہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 25 ).

امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس باب ميں عائشہ، ابو سعيد ابوہريرہ، سھل بن سعد، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كى احاديث بھى ہيں.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مجھے اس باب ميں كسى ايسى حديث كا علم نہيں جس كى سند جيد ہو. امام ترمذى كى كلام ختم ہوئى.

اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

سوال نمبر ( 21241 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے كہ اس حديث كے صحيح ہونے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ اس كا مطالعہ كر سكتے ہيں.

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے " المجموع " ميں امام بيہقى كا قول نقل كيا ہے كہ:

" بسم كے متعلق صحيح ترين حديث انس رضى اللہ تعالى عنہ كى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پانى والے برتن ميں ہاتھ ركھا اور فرمايا: بسم اللہ پڑھ كے وضوء كرو "

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى انگليوں سے پانى پھوٹتے ہوئے ديكھا، اور قوم وضوء كر رہى تھى حتى كہ سب سے آخرى شخص نے بھى وضوء كيا، اس وقت تقريبا ستر آدمى تھے"

اس كى سند جيد ہے، اور امام بيھقى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب: معرفۃ السنن والآثار ميں اس حديث سے حجت پكڑى ہے " اور باقى احاديث كو ضعيف قرار ديا ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 385 ).

وضوء كے بعد كى دعاؤں ميں كئى ايك احاديث وارد ہيں، ان سب كا مجموعہ يہ ہے كہ درج ذيل دعائيں پڑھيں جائيں:

" أشْهَدُ أنْ لا إله إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيك لَهُ وأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ "

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں.

" اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَوَّابِينَ ، واجْعَلْني مِنَ المُتَطَهِّرِينَ "

اے اللہ مجھے توبہ كرنے والوں ميں شامل كر، اور مجھے پاكى اختيار كرنے والوں ميں شامل كر دے.

" سُبْحانَكَ اللَّهُمَّ وبِحَمْدِكَ ، أشْهَدُ أنْ لا إلهَ إِلاَّ أنْتَ ، أسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ "

اے اللہ پاك ہے تو اور تيرى ہى تعريف ہے، ميں گواہى ديتا ہوں كہ تيرے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، ميں تجھ سے بخشش طلب كرتا ہوں اور تيرى طرف توبہ كرتا ہوں.

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے جو شخص بھى اچھى اور بنا سنوار كر وضوء كرے اور پھر يہ دعاء پڑھے:

" أشْهَدُ أنْ لا إله إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيك لَهُ وأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ "

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں.

تو اس كے ليے جنت كے آٹھوں دروازے كھول ديے جاتے ہيں، وہ جس دروازے سے چاہے جنت ميں داخل ہو جائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 234 ).

امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے يہ الفاظ زائد نقل كيے ہيں:

" اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَوَّابِينَ ، واجْعَلْني مِنَ المُتَطَهِّرِينَ "

اے اللہ مجھے توبہ كرنے والوں ميں شامل كر، اور مجھے پاكى اختيار كرنے والوں ميں شامل كر دے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 55 ).

ان زيادہ الفاظ كو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف قرار ديتے ہوئے كہا ہے:

يہ جو الفاظ ترمذى ميں زيادہ ہيں اس حديث ميں ثابت نہيں " انتہى.

ماخوذ از: الفتوحات الربانيۃ ( 2 / 19 ).

ليكن علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں انہيں صحيح قرار ديا ہے، اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے " زاد المعاد " ميں كہا ہے كہ بالجزم يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہيں.

اور " سُبْحانَكَ اللَّهُمَّ وبِحَمْدِكَ ، أشْهَدُ أنْ لا إلهَ إِلاَّ أنْتَ ، أسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ "

اے اللہ پاك ہے تو اور تيرى ہى تعريف ہے، ميں گواہى ديتا ہوں كہ تيرے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، ميں تجھ سے بخشش طلب كرتا ہوں اور تيرى طرف توبہ كرتا ہوں. "

يہ الفاظ امام نسائى رحمہ اللہ تعالى نے عمل اليوم و الليۃ ميں اور امام حاكم نے مستدرك حاكم ميں ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے نقل كيے ہيں.

رواۃ كا اس ميں اختلاف ہے كہ آيا يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مرفوع ثابت ہے يا كہ صحابى ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ہے ؟

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" بلا شك و شبہ سند تو صحيح ہے، صرف متن ميں اختلاف ہے كہ آيا يہ مرفوع ہے يا موقوف، امام نسائى رحمہ اللہ تعالى ترجيح ميں اپنے طريقہ اكثريت اور احفظ پر چلے ہيں، اسى ليے انہوں نے اس پر خطا كا حكم لگايا ہے، ليكن مصنف ( يعنى امام نووى ) كے طريق كے مطابق ابن صلاح وغيرہ كى پيروى كرتے ہوئے ان كے ہاں مرفوع اس وقت مقدم ہے جب اسے مرفوع بيان كرتے والے كا علم زيادہ ہو، اور دوسرے طريق پر عمل كرنے كو مقدر كرتے ہوئے اس ميں رائے كى مجال نہيں، چنانچہ اسے مرفوع كا حكم ہے " انتہى.

ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 2 / 21 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 225 ) اور السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2333 ) ميں صحيح قرار ديا ہے. اور تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 94 - 98 ) بھى ديكھيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو وضوء كے متعلق يہى دعائيں ثابت ہيں ليكن وضوء كے اعضاء دھوتے وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى بھى دعاء اور كلمہ ثابت نہيں.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " الاذكار" ميں لكھتے ہيں:

وضوء كے اعضاء دھوتے وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى دعاء ثابت نہيں.

ديكھيں: الاذكار للنووى ( 60 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى " زاد المعاد " ميں لكھتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول نہيں كہ آپ وضوء كے اعضاء دھوتے وقت بسم اللہ كے علاوہ كچھ نہيں كہتے تھے، اور دوران وضوء جتنى بھى دعائيں مذكور ہيں وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كچھ بھى ثابت نہيں، اور نہ ہى انہوں نے اپنى امت كو اس كى تعليم دى ہے، ان كے ذمہ جھوٹ ہے، وضوء كے شروع ميں بسم اللہ كے علاوہ كچھ ثابت نہيں، اور وضوء كے آخر ميں يہ دعاء:

" أشْهَدُ أنْ لا إله إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيك لَهُ وأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ "

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں.

" اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَوَّابِينَ ، واجْعَلْني مِنَ المُتَطَهِّرِينَ "

اے اللہ مجھے توبہ كرنے والوں ميں شامل كر، اور مجھے پاكى اختيار كرنے والوں ميں شامل كر دے.

اور سنن ترمذى كى ايك حديث ميں وضوء كے بعد يہ دعاء بھى پڑھنا ثابت ہے:

" سُبْحانَكَ اللَّهُمَّ وبِحَمْدِكَ ، أشْهَدُ أنْ لا إلهَ إِلاَّ أنْتَ ، أسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ "

اے اللہ پاك ہے تو اور تيرى ہى تعريف ہے، ميں گواہى ديتا ہوں كہ تيرے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، ميں تجھ سے بخشش طلب كرتا ہوں اور تيرى طرف توبہ كرتا ہوں.

يہ دعائيں ثابت ہيں. انتہى.

ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 1 / 195 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دوران وضوء كوئى بھى دعاء ثابت نہيں، عام لوگ وضوء كا ہر عضو دھوتے وقت جو دعائيں پڑھتے ہيں مثلا چہرہ دھوتے وقت :

" اللهم بيض وجهي يوم تسود الوجوه "

اے اللہ ميرا چہرہ اس دن سفيد كرنا جس دن چہرے سياہ ہونگے.

اور بازو دھوتے وقت :

" اللهم أعطني كتابي بيميني ، ولا تعطني كتابي بشمالي "

اے اللہ مجھے ميرا اعمال نامہ ميرے دائيں ہاتھ ميں دينا، اور مجھے ميرا اعمال نامہ ميرے بائيں ہاتھ ميں نہ دينا .

اس كے علاوہ باقى ہر اعضاء دھوتے وقت كى دعائيں ثابت نہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 221 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب