الحمد للہ.
سوال نمبر ( 40156 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ چوپايوں ميں زكاۃ اس وقت واجب ہوتى ہے جب وہ چرنے والے ہوں، اور چرنے كا معنى يہ ہے كہ وہ سارا سال يا سال كا اكثر حصہ چرتے ہوں، ليكن اگر انہيں نصف برس يا اس كا اكثر حصہ چارہ ڈالا جاتا ہو تو ان ميں زكاۃ نہيں ہو گى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:
ہمارے امام ( يعنى امام احمد ) اور امام ابو حنيفہ رحمہما اللہ كا مذہب يہ ہے كہ اگر وہ سال كے اكثر حصہ ميں چرتے ہوں تو اس ميں زكاۃ ہو گى.
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر وہ سارا سال نہ چرتے ہوں تو اس ميں زكاۃ نہيں، كيونكہ زكاۃ كے ليے چرنا شرط ہے، لہذا اسے سارا سال معتبر ہو گا، اور ہمارى دليل چوپايوں ميں زكاۃ كےوجوب والے عمومى دلائل ہيں، اور تھوڑا سا چارہ ڈالنے سے چرنے كا نام زائل نہيں ہوتا، لہذا اسے حديث ميں داخل ہونے سے منع نہيں كرتا، اور اس ليے بھى كہ تھوڑى سى مدت كے ليے چارہ ڈالنے سے بچا نہيں جا سكتا، اور اسے سارے سال ميں معتبر سمجھنے سے بالكل ہى زكاۃ ساقط ہو جاتى ہے. اھـ مختصرا.
" كيونكہ چوپايوں كے مالكوں كو بعض اوقات لازما چارہ ڈالنا پڑتا ہے، اور وہ اس پر مجبور ہوتے ہيں، مثلا سردى اور برفبارى كے موسم ميں " اھـ
ماخوذ از: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 23 / 250 ).
شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
ايك شخص كے پاس اونٹ ہيں، وہ چرانے كے ايام ميں ان كے ليے چراگاہ خريدتا ہے، تو كيا ان ميں زكاۃ ہے ؟
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اگر تو سال كا اكثر حصہ چرنے پر بسر ہوتا ہے، مثلا وہ تين يا چار ماہ ان كے ليے چارہ خريدتا ہے، تو وہ اس كى زكاۃ ادا كرے گا، علماء كرام كے اقوال ميں سے مشہور قول يہى ہے" اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 48 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص كے پاس سو اونٹ ہيں، ليكن وہ سال كا اكثر حصہ انہيں چارہ ڈالتا ہے، تو كيا اس ميں زكاۃ ہو گى ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جب چوپائے اونٹ يا گائے اور بكرياں وغيرہ سارا سال يا سال كا اكثر حصہ چرنے والوں ميں سے نہ ہوں تو اس ميں زكاۃ واجب نہيں ہوتى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان ميں زكاۃ واجب ہونے ميں يہ شرط ركھى ہے كہ وہ چرنے والے ہوں.
لھذا اگر مالك سال كا اكثر يا نصف حصہ انہيں چارہ ڈالتا ہے تو اس ميں زكاۃ نہيں، ليكن اگر وہ تجارت كے ليے ہوں تو پھر اس ميں تجارت كى زكاۃ ہو گى، اور اس طرح يہ تجارتى سامان ميں شامل ہونگے، جس طرح فروخت كرنے كے ليے اراضى اور گاڑياں وغيرہ ہوتى ہيں، جب ان ميں سے موجود جانوروں كى قيمت سونے يا چاندى كے نصاب كو پہنچ جائے تو اس ميں زكاۃ ہو گى" اھـ
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " فتاوى الزكاۃ " ميں كہتے ہيں:
" جن مواشيوں كو پورا نصف سال چارہ ڈالا جاتا ہے، ان ميں زكاۃ نہيں ہے كيونكہ مواشى كى زكاۃ اس وقت واجب ہوتى ہے جب وہ چرنے والے ہوں، اور چرنے والے وہ ہيں جو سارا سال يا سال كا اكثر حصہ قدرتى نباتات كھا كر بسر كريں، ليكن وہ مواشى جنہيں سال كا كچھ حصہ يا نصف برس چارہ ڈالا جاتا ہو ان ميں زكاۃ نہيں.
ليكن اگر يہ مواشى تجارت كے ليے ہوں تو ان كا حكم تجارتى سامان كا ہو گا، اور اگر يہ ايسے ہوں تو ہر سال ان كى قيمت كا اندازہ لگا كر اس قيمت ميں سے دس كا چوتھائى حصہ يعنى اڑھائى فيصد زكاۃ نكالى جائے گى" اھـ
ديكھيں: فتاوى الزكاۃ ( 49 ).
اور " الشرح الممتع " ميں كہتے ہيں:
" جب انسان كے پاس اونٹ ہوں جو كہ پانچ ماہ چرتے ہوں، اور انہيں سات ماہ مالك خود چارہ ڈالتا ہو تو ان ميں زكاۃ نہيں ہے.
اور اگر چھ ماہ چريں اور انہيں چھ ماہ چارہ ڈالا جائے تو اس ميں زكاۃ نہيں ہے.
اور اگر وہ سارا برس چرتے ہوں تو ان ميں زكاۃ ہو گى.
اور اگر سات ماہ چرتے ہوں اور انہيں پانچ ماہ چارہ ڈالا جائے تو ان ميں زكاۃ ہو گى" اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 32 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" چرنے والى بكريوں ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے... جب وہ سارا سال يا سال كا اكثر حصہ چرتى ہوں " اھـ مختصرا
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 214 ).
واللہ اعلم .